عہد نبوی میں منافقین کا کردار

0

عہد نبوی میں منافقین کا  کردار

غزوہ تبوک میں منافقین کا کردار

 غزوہ تبوک ماہ رجب سنہ 9 ھ میں پیش آیا تھا۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ عرب کے ریگستانوں میں دھوپ بہت کڑک تھی اور پھل پک رہے تھے ۔اس بار جنگ اس وقت کی سپر پاور رومیوں سے تھی۔ لوگ تنگی کا شکار تھے تو ایسے حالات میں گھر سے نکلنا بہت مشکل کام تھا۔ اس دفعہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپؐ نے اعلان کر دیا تھا کیونکہ اس بار مقابلہ سخت دشمن سے تھا۔ لہذا لوگ اس کے لیے اپنی تیاری کر لیں۔

صحابہ کرام نے اپنی طاقت سے بڑھ کر تعاون کیا تھا۔ حضرت عثمان نے ایک ہزار دینار دئیے۔ حضرت ابوبکر نے اپنا سارا اثاثہ آپؐ کی خدمت پیش کر دیا۔ لیکن کچھ صحابہ غریب تھے تو انہوں نے آپؐ سے آکر عرض کی کہ ہم بھی جہاد میں حصہ جانا چاہتے ہیں ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے تو ہمیں بھی سواری دی جائے تو آپؐ نے فرمایا : میرے پاس تو کوئی سواری نہیں ہے چنانچہ وہ صحابہ روتے ہوئے واپس چلے گئے۔ ان کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ وہ جہاد میں جانا چاہتے ہیں پر ان کے پاس سواری نہیں ہے۔ تو ان کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ جس کا قرآن میں ایسے ذکر کیا گیا ہے ۔

” تَوَلَّوْا وَّاَعۡيُنُهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوۡا مَا يُنۡفِقُوۡنَؕ‏ “ [1]

”جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں

 کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس آگئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے

 خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔“

ایک طرف صحابہ نہ جانے کی وجہ سے دکھی تھے اور دوسری جانب منافقین کا یہ حال تھا کہ وہ نہ جانے کے بے بنیاد بہانے تلاش کرنے میں مصروف تھے۔ ان کے دل اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے خالی تھے۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ گرمی بہت زیادہ ہے تو ایسے میں باہر نہ نکلو اور ایسے بہت سے عذر پیش کرنے لگے جن سے انکا نفاق ظاہر ہو جاتا تھا ۔ مثال کے طور پر قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص جد بن قیس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپؐ جہاد کی تیاری میں مصروف تھے تو آپؐ نے فرمایا :

”اے جد، اس سال بنی الاصفر یعنی رومیوں سے جنگ کے لیے چلو اس نے کہا اے اللہ کے رسول میری طرف سے معذرت سمجھیے اور آزمائش میں نہ ڈالیے۔ اللہ کی قسم میں جانتے ہیں میں عورتوں کا بہت شوقین ہوں اور اگر میں جنگ میں ساتھ گیا تو رومیوں کی عورتوں کو دیکھ کر خود پر قابو نہ پاسکوں گا تو آپؐ نے فرمایا تمہیں رخصت ہے۔“[2]

اس پر قرآنی آیت نازل ہوئی :

” وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّىۡ وَلَا تَفۡتِنِّىۡ‌ ؕ اَلَا فِى الۡفِتۡنَةِ سَقَطُوۡا‌ ؕ وَاِنَّ جَهَـنَّمَ لَمُحِيۡطَةٌ ۢ بِالۡـكٰفِرِيۡنَ “ [3]

ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ” مجھے رُخصت دے دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے “۔۔۔۔ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے اِن کافروں کو گھیر رکھا ہے۔“

ابن کثیر کی ایک روایت سے بھی منافقین کا کردار واضح ہوتا ہے۔ ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ جس وقت آپؐ اسلامی لشکر کے ساتھ تبوک کی طرف سفر کر رہے تھے اور منافقین کی ایک جماعت آپؐ کے ہمراہ تھی ان میں ودیعہ بن ثابت بنوامیہ بن زید بن عمرو بن عوف کے بھائی اور بنی سلمہ کے حلیف اشجع میں سے ایک آدمی   جس کو مخشی بن حمیر کہا جاتا تھا وہ بھی ساتھ تھے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کر دیا کہ کیا تم لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اصفر سے جنگ عربوں کی باہمی جنگ کے مثل ہے؟ اللہ کی قسم کل ہم رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ منافقین یہ باتیں مسلمانوں میں خوف پھیلانے کے لیے کر رہے تھے تاکہ وہ جنگ سے پہلے واپس ڈر کر بھاگ جائیں۔ اس موقع پر مخشی بن حمیر نے کہا، ”اللہ کی قسم میں تو چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔“

ہمارا گمان ہے کہ تمہاری ان باتوں پر قرآن نازل ہوگا۔ مجھے معلوم ہوا کہ رسول الله نے اس موقع پر عمار بن یاسر سے فرمایا :

” لوگوں کے پاس جاؤ بے شک وہ جل گئے ہیں اور ان سے پوچھو ان باتوں کے متعلق جو انہوں نے کی ہیں پس اگر وہ انکار کریں تو ان سے کہو کہ کیوں نہیں تم نے یہ باتیں کہی ہیں۔

حضرت عمار ان کے پاس گئے اور ان سے یہ باتیں کیں پس وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عذر پیش کرنے لگے۔ رسول الله اس وقت اپنی سواری پر سوار تھے ودیعہ بن ثابت نے اس کا کجاوہ پکڑ کر کہا:

اے اللہ کے رسول ہم تو ہنسی مذاق میں یہ باتیں کر رہے تھے۔ پس مخشی بن حمیر نے کہا کہ "اے الله کے رسول وہ میرے اور میرے باپ کے نام کے ساتھ بیٹھے ہیں۔“

پس جس شخص کو اس آیت کے ذریعے معاف کیا گیا ہے وہ مخشی بن حمیر تھا۔ پس اس کے بعد اس کا نام عبد الرحمان رکھا گیا۔ اس نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اس کو شہید کیا جائے اور اسکا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے تو جنگ یمامہ میں وہ شہید ہوئے اور ان کا کوئی نشان نہ مل سکا۔ [4]

یہ تھا غزوہ تبوک میں منافقین کا کردار۔ بے بنیاد بہانے بنانا ، مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا اور جہاد سے گریز کرنا وغیرہ۔ منافقین کا یہ کردار ہر موقع پر ظاہر ہوتا ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ جنگ میں شرکت کرنے سے انکے مقصد پورے نہیں ہو سکتے تو انہوں نے مل کر مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا شروع کر دیے۔یہ لوگ مدینہ میں سویلم نامی یہودی کے گھر اکھٹے ہو کر سازشیں کرتے تھے ۔ جب آپؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے چند صحابہ کو بھیج کر سوئم کا گھر جلا دیا۔

غزوہ اُحد سے واپسی               

 منافقین نے اپنی سابقہ روش کے پیش نظر غزوہ احد میں بھی منافقانہ کردار ادا کیا۔ اور اس غزوہ میں بھی شامل ہونے سے معذرت کرلی کیونکہ منافقین کے لیے دوسرے کاموں جیسے نماز، روزہ وغیرہ میں شامل ہونا آسان تھا کیونکہ ان میں انکا نفاق ظاہر نہیں ہوتا تھا لیکن جنگ کے موقعوں پر چونکہ انہیں مرنے کا ڈر لگا رہتا تھا اس لیے ہر جنگ کے موقع پر ان کا نفاق ظاہر ہونے لگتا تھا۔ غزوہ احد کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ آپؐ نے غزوہ احد کے موقع جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام سے مشورہ لیا تو اکثر صحابہ نے مدینہ کے اندر رہ کر جنگ لڑنے کا مشورہ دیا لیکن وہ صحابہ جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے انہوں نے شہادت پانے کے شوق میں کہا کہ شہر سے باہر نکل کر میدان میں مقابلہ کیا جائے آپؐ کی اپنی خواہش بھی یہی تھی کہ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ لیکن چند صحابہ کے اصرار پر آپ نے شہر سے باہر نکل کر دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔

عبدالله بن ابی ابن سلول کی واپسی       

آپؐ ایک ہزار مسلمانوں کے ساتھ احد تشریف لے گئے۔آپؐ نے سب سے کہا کہ اگر تم ثابت قدم رہو گے تو فتح پاؤ گے۔ آپؐ جب مدینہ سے نکل کر اُحد کی طرف روانہ ہوئے تو عبد الله بن اُبی بن سلول یہ کہہ کر واپس ہو گیا کہ آپؐ نے ہمارے مقابلے میں نو عمر اور اور ناتجربہ کار لوگوں کا مشورہ قبول کیا ہے اس لیے ہم اپنی جانیں کیوں گوائیں۔ اس کے ساتھ تین سو آدمی اور تھے جنہوں نے آپؐ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ حضرت ابو جابر اسلمی ان کو پھر بلا کر لانے کے لیے ان کے پیچھے گئے تو عبد الله بن ابی کی جماعت نے ان کو پکڑ لیا اور کہا کہ ہماری مانو تو ہمارے ساتھ تم بھی واپس چلو۔ بنو حارثہ اور بنو سلمہ یہ قبیلے بھی واپس جانا چاہتے تھے مگر ان کو اللہ نے بچا لیا اور بقیہ سات لوگ اُحد میں آپؐ کے ساتھ ٹھہرے رہے ۔ [5]

مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض   

عہد نبوی میں منافقین کی اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں۔ اور وہ ان پر ، صحابہ پر اعتراض اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل میں نفاق جیسی مرض پائی جاتی تھی۔ وہ نہ صرف مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے بلکہ آپؐ پر بھی نا انصافی کا الزام لگانا شروع ہو گئے تھے۔

 ایک دفعہ آپؐ غزوہ حنین کے موقع پر بنو ہوازن سے حاصل کیا ہوا مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ذوالخویصرہ نامی منافق جسکا اصل نام حرقوص بن زھیر التمیمی تھا اس نے آپ پر اعتراض کیا اور کہا کہ :

”اے محمدؐ ، انصاف کیجئے“

 اس پر آپؐ نے فرمایا :   

  اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا “

اس پر حضرت عمر نے کہا کہ: "اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں- پس آپؐ نے فرمایا کہ:

     اس کو چھوڑ دو بے شک اس کے ساتھی اپنی نمازوں کے مقابلہ میں تمہاری نمازوں کو حقیر جانتے ہیں اور اپنے روزوں کے مقابلے میں تمہارے روزوں کو حقیر جانتے ہیں یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے“۔

 ابن مرودیہ نے حضرت عبدالله بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ :

جب رسول الله غزوہ حنین میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کو تقسیم فرما رہے تھے تو میں نے ایک آدمی کو سنا جو کہہ رہا تھا کہ :

” اس طرح تقسیم سے آپؐ کا ارادہ رضا حاصل کرنے کا نہیں تھا۔“

پس میں آپؐ کے پاس آیا اور اس بات کا ذکر کیا جو اس منافق نے کہی تھی اس پر آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحمت نازل کرے۔ ان کو اس سے زیادہ تکالیف دی گئیں پس انہوں نے صبر کیا۔[6]

” أَعذ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّلۡمِزُكَ فِى الصَّدَقٰتِ‌ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡهَا رَضُوۡا وَاِنۡ لَّمۡ يُعۡطَوۡا مِنۡهَاۤ اِذَا هُمۡ يَسۡخَطُوۡنَ‏ “[7]

اے نبی ؐ ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔

الغرض منافق لوگوں کو اسلام کی ترقی ، صحابہ کا اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں جو مقام تھا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اس لیے وہ ہر روز نئے منصوبوں میں لگے رہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار ان کا ذکر کر کے ان کی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کر سکیں ۔

رسول اللہ کے حکم کا انکار

منافقین اپنے معاملات میں فیصلہ کروانے کے لیے آپؐ کے پاس جانے سے گھبراتے تھے اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا نفاق تھا کیونکہ آپؐ امیر، غریب، مسلمان، کافر کا لحاظ کیے بنا الله کے حکم کے مطابق حق پر فیصلہ فرماتے تھے اور منافقین زیادہ تر تنازعات میں جھوٹے ہوتے تھے اس لیے آپؐ سے فیصلہ کرواتے ہوئے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا آپؐ کسی کی سفارش بھی قبول نہیں کرتے اور جو بھی ہو حق پر فیصلہ کرتے ہیں۔

 ایک دفعہ بشر نامی منافق کے ساتھ ایک یہودی کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں کا آپس میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ یہودی نے کہا چل محمد کے پاس ان سے فیصلہ کروا لیتے ہیں مگر بشر نامی منافق نے کہا کعب بن اشرف یہودی کے پاس چلتے ہیں اور ان سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ کعب بن اشرف یہود کا ایک بڑا سردار اور مسلمانوں کا دشمن تھا۔ یہ عجیب بات تھی کہ یہودی اپنے سردار کی بجائے آپؐ سے فیصلہ کروانا چاہتا تھا اور اپنے آپکو مسلمان کہنے والا آپؐ کی بجائے یہودی سردار سے فیصلہ کروانا چاہتا تھا ۔

مگر دونوں کو معلوم تھا کہ آپ حق و انصاف کا فیصلہ کریں گے کیونکہ اس جھگڑے میں یہودی حق پر تھا تو اس لئے اسے اپنے سردار کی بجائے آپ کے فیصلے پر اعتماد تھا اور بشر نامی منافق غلط تھا تو وہ اس لیے آپؐ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا تھا۔ دونوں میں باہمی گفتگو کے کے بعد طے پایا کہ آپؐ سے اس مقدمہ کا فیصلہ کروائیں۔ آپؐ کے پاس مقدمہ پہنچا۔ آپؐ نے سارے معاملے کی تحقیق فرمائی تو یہودی سچا ثابت ہوا اور اسی کے حق میں فیصلہ سنایا گیا چونکہ بشر نامی منافق ناکام ہوا تو وہ اس فیصلے پر راضی نہ ہوا تو اس نے یہودی کو اس بات پر راضی کیا کہ ہم حضرت عمر بن خطاب سے فیصلہ کرانے کے لیے جائیں ۔ یہودی نے اس کو بھی قبول کر لیا۔ بشر نامی منافق کو یہ لگا کہ حضرت عمر چونکہ چونکہ کفار کے معاملہ میں سخت ہیں تو وہ فیصلہ میرے حق میں دیں گے یہ دونوں حضرت عمر کے پاس پہنچے۔ یہودی نے حضرت عمر کو سارا قصہ بیان کر دیا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ آپؐ فرما چکے ہیں مگر یہ اُس سے مطمئن نہیں اور آپ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے ۔ حضرت عمر نے بشر سے اس واقعہ کی تصدیق کی تو اس نے اقرار کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا :

”اچھا ٹھہرو میں آتا ہوں ، گھر میں تشریف لے گئے اور تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا کام تمام کر دیا اور فرمایا      جو شخص رسول الله کے فیصلہ پر راضی نہ ہو، اسکا فیصلہ یہی ہے“۔[8]

آئمہ مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کے بعد منافق کے وارثوں نے حضرت عمر کے خلاف یہ دعویٰ بھی دائر کیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بغیر دلیل شرعی کے مار دیا اور اس کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کے کفر قولی و فعلی کی تاویلیں پیش کیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور مقتول شخص کا منافق ہونا ظاہر فرما کر کہ حضرت عمر کو بری کر دیا۔

” اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡۤا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖ ؕ وَيُرِيۡدُ الشَّيۡـطٰنُ اَنۡ يُّضِلَّهُمۡ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا “ [9]

”اے نبی ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور

 ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رُجوع کریں، حالانکہ

 انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔“

یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات سے منافقین کے مکروہ چہرے سے نفاق کا پردہ اٹھ گیا اور ان کی اصل صورت سب کو نظر آگئی ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات سیرت میں ملتے ہیں جن میں منافقین نے آپ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔انہیں معلوم تھا کہ ہمارا ایمان تو کامل نہیں ہے اس لیے وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور کبھی کوئی کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو آپ کے پاس فیصلہ کروانے کر لئے گھبراتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا آپ حق و سچ کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے ہر وقت ان پر خطرہ منڈلاتا رہتا کہ اب کسی گھڑی وحی نازل ہو جائے اور ہمارے نفاق سے پردہ نہ اٹھ جائے۔

واقعہ افک                  

واقعہ افک منافقین کی سازشوں کی انتہا ہے یعنی اب تک منافقین کا جو رد عمل رہا وہ ایک طرف اور واقعہ افک کا طوفان بدتمیزی ایک طرف۔ اس موقع پر منافقین نے دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی۔ اور جو منہ میں آیا بولتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت محمد کے حرم تک کو بھی نہ چھوڑا ۔معاملہ کچھ اس طرح تھا کہ آپ کی عادت تھی کہ آپ جب بھی کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے چنانچہ غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر حضرت عائشہ کے نام قرعہ نکلا اور آپ اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھیں چونکہ پردہ کا حکم نازل ہوچکا تھا اس لیے ہودج میں سوار کی جاتی تھیں اور جب اتاری جاتیں تو ہودج سمیت ہی اتاری جاتیں اور ہودج پر پردے لٹکے رہتے تھے۔ واپسی پر مدینہ کے قریب پہنچ کر ایک مقام پر قیام کیا۔ لشکر کو کوچ کا حکم دیا گیا۔ حضرت عائشہ قضاء حاجت کے لیے لشکر سے دور چلی گئیں واپس آنے لگیں تو ان کا ہار ٹوٹ گیا جو نگینوں کا تھا۔ ان کو جمع کرنے میں دیر لگ گئی قافلہ روانگی کے لیے تیار تھا۔ ہودج کے پردے گرے ہوئے تھے لوگوں کو لگا حضرت عائشہؓ ہودج میں ہی ہیں۔ ہودج کو اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے۔ لشکر روانہ ہونے کے بعد ہار ملا جب آپ واپس لشکر کے پاس آئیں تو یہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ انہوں نے سوچا جب آپ اگلے مقام پر پہنچ کر مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ میری تلاش کے لے آدمی روانہ کردیں گے چنانچہ اسی جگہ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں اسی میں نیند آ گئی۔

حضرت صفوان جو قافلہ کی پیچھے گری پڑی چیز اٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے وہ جب اس مقام پر پہنچے تو انہوں نے حضرت عائشہؓ کو پہچان لیا کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا ہوا تھا۔ آپ کو دیکھ کر انا للہ وانا اليه راجعون پڑھا۔ حضرت عائشہ کی آواز سن کر آنکھ کھل گئی تو فورا چادر سے منہ ڈھانپ لیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔

”اللہ کی قسم صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور ان کی زبان سے سوائے انا للہ کے میں نے کوئی کلمہ سنا۔“

حضرت صفوان نے اپنا اونٹ لاکر حضرت عائشہ کے قریب کر دیا۔ ابن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت صفوان اونٹ سامنے کر کے خود پیچھے ہٹ گئے۔ ام المومنین سوار ہو گئیں اور حضرت صفوان مہار پکڑ کر روانہ ہو گئے اور لشکر تک جا پہنچے ۔ عبد الله بن ابی ابن سلول اور گروہ منافقین نے دیکھتے ہیں فضول بولنا شروع کر دیا جسکو ہلاک و برباد ہونا تھا وہ ہلاک برباد ہوا۔ [10]

” اِنَّ الَّذِيۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡكِ عُصۡبَةٌ مِّنۡكُمۡ‌ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡهُ شَرًّا لَّـكُمۡ‌ ؕ بَلۡ هُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ ؕ لِكُلِّ امۡرِىٴٍ مِّنۡهُمۡ مَّا اكۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ‌ ۚ وَالَّذِىۡ تَوَلّٰى كِبۡرَهٗ مِنۡهُمۡ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ ۞ لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡهُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِهِمۡ خَيۡرًاۙ وَّقَالُوۡا هٰذَاۤ اِفۡكٌ مُّبِيۡنٌ‏ “ [11]

” جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔  اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر

 ہی ہے۔  جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس  کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا  اس کے لیے عذابِ

 عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا  اور کیوں

 نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے “

 وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں ہوتے اور دین کو نقصان پہنچایا جائے ۔ منافقین ہر زمانہ میں سازشیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہے گے۔یہ منافقین کی منافقت کا عروج تھا۔ ان لوگوں کو الله کے رسول اور اہل ایمان کو نقصان پہنچانا ، تکلیف دینا بہت پسندتھا وہ ہر وقت اسی موقع کی تلاش میں رہتے کسی طرح صحابہ کرام کو آپ سے دور کیا جائے ان کے دل میں بد گمانی پیدا کی جائے اور دین کو نقصان پہنچایا جائے ۔ منافقین ہر زمانہ میں سازشیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہے گے۔

 

حضرت ابو بکرصدیق ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت عمر ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت عثمان ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت علی ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

 


[1]  التوبہ 92:9

[2] اعظمی، محمد لقمان ، عہد نبوی کا مدنی معاشرہ قرآن کی روشنی میں، ص 404۔

[3]  التوبہ 49:9

[4] ابن کثیر، اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج 2، ص 484۔

[5] طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ، مؤسستہ الا علمی للمطبوعات بیروت، لبنان 1879ء ، ج 2 ، ص 190

[6] آلوسی، محمود ، روح المعانی ، ج 5، ص ۔310۔309

[7]  التوبہ  58:9

[8] عثمانی، محمد شفیع ، معارف القرآن ، ادارة المعارف کراچی نمبر 14 ، 1400ھ ۔ 1980ء ، ج 2 ، ص 456۔ 457

[9] النساء 60:4

[10] کاندھلوی ، محمد ادریس ، سیرت المصطفی ، فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی 2001ء ، ج 2، ص 287- 288

[11] النور11:24


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.