حضرت عمر ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار

1

حضرت عمر ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار

 حضرت عمر ؓ کےعہد   میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت عمر بن خطابؓ   کا دور خلافت نہ صرف تاریخ اسلامی کا بلکہ تاریخ انسانی کا ایک سنہری دور ہے۔ جس میں ہر طرف امن و آتشی کا دور دورہ تھا۔ عدل و انصاف کی فضائیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں ۔ فتنہ و فساد کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔ فتوحات کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا۔ اس بات کا صرف اپنے مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر بھی اعتراف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپؓ کے دور میں فتنہ پرور چیزیں اور منافقین موجود نہ تھے بلکہ اس وقت تو ان کے اصل الاصول یہود بھی زیادہ تعداد میں موجود تھے۔

عرب کے جلا وطن شده یہودی اور ایران و روم کے مجوسیوں اور عیسائیوں کے گٹھ جوڑ سے خلافت اسلامیہ اور حضرت عمر فاروق کے خلاف جو تحریکیں چلائیں گئیں حضرت عمر ؓ  کے زمانہ میں ان کو زیادہ فروغ نہ مل سکا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ خود حضرت عمرؓ        کی صولت اور رعب و دبدبہ تھا۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسی شخصیت   ،ایسا کردار عطا فرمایا تھا کہ بڑے بڑے مدبرین آپؓ سے ڈرتے ، تھراتے تھے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کے فرمان کے مطابق شیطان بھی آپؓ سے ڈرتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے ۔

”تجھے چلتے ہوئے شیطان کسی راستے میں نہیں ملتا لیکن یہ کہ وہ تیری راہ چھوڑ کر دوسری راہ لے لیتا ہے“۔[1]

یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانوں اور جنوں کے دلوں میں بھی آپ کا رعب و دبدبہ موجود تھا۔

حضرت عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت سے  پہلے بھی فتنہ منافقین و یہود کافی تھا اور آپ ؓ     کی خلافت کے بعد بھی بہت زور شور سے جاری رہا لیکن آپ ؓ       کی خلافت کے دس سال میں ان شر پسندوں کی سازشوں کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا کیونکہ یہ آپﷺ کی پیشنگوئی تھی اور یہ حضرت عمر فاروق ؓ  کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے تھا ۔

منافقین لخموجزام

حضرت عمر فاروقؓ   کے عہد خلافت میں جب مسلمان سلطنت روم سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تو اس وقت لخم اور جزام قبیلوں کے افراد بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے مگر جب انہوں نے کھمسان کی جنگ دیکھی تو وہ بھاگ گئے اور قریب کے دیہاتوں میں جا کر پناہ لی اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کیا۔[2]

 حضرت فاروق اعظمؓ کے زمانہ خلافت میں منافقین کی غداری اور دھوکہ دہی کا یہ ایک معمولی سا واقع ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے

 کہ اگرچہ یہ حضرت عمر فاروقؓ کے جلال کی وجہ سے دبے رہتے  لیکن انہیں جب بھی کہیں تھوڑا سا بھی موقعہ ملتا یہ اپنی فطرت سے باز نہیں

 آتے تھے اور یہی قبیلہ الخم اور جذام کے منافقین نے کیا تھا۔

منافقین کوفہ کی غداری

خلافت فاروقی میں حضرت عمار بن یاسرؓ    کوفہ کے عامل تھے۔ ایک دفعہ اہل کوفہ میں سے عطارد اور اس کے ساتھیوں نے حضرت عمار بن یاسر ؓ کے خلاف دربار فاروقی میں شکایت کی ،انہوں نے کہا کہ وہ (عمار )صحیح معنوں میں امیر نہیں ہیں اور نہ ان کے اندر ایک حاکم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ اہل کوفہ حضرت عمار بن یاسر ؓ  کے خلاف ہو گئے۔ اس لیے حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت عمار بن یاسرؓ           کو لکھا کہ  ”تم میرے پاس آ جاؤ“۔

 لہذا حضرت عمار بن یاسرؓ   اہل کوفہ کا ایک وفد اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے اور کچھ ایسے لوگوں کو بھی وفد کے طور پر بھیجا جن کے بارے میں ان کو خیال تھا کہ وہ ان کے حامی ہیں۔ مگر وہ ان سے بھی زیادہ مخالف نکلے جن کو حضرت عمار پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اس لیے وہ بہت پریشان ہوئے ۔ ان سے پوچھا کہ اے ابو الیقظان ( حضرت عمار بن یاسرؓ    کی کنیت ہے ) یہ گھبراہٹ کیوں ہے؟ وہ بولے ” خدا کی قسم میں اس پر اپنی ذات کی تعریف نہیں کرتا ہوں بہر حال میں اس میں مبتلا ہوں۔[3]

قطع نظر اس بات کے کہ حضرت عمار بن یاسر ؓ نے دربار فاروقی میں آکر اپنی انتظامی صلاحیتوں کی کمی کا اعتراف کر لیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کوفہ میں حضرت عمار بن یاسرؓ کے طرف دار تھے اور اسی بات پر بھروسہ کر کے حضرت عمار ؓنے ان لوگوں کو حضرت عمر ؓکے پاس بھیجا تھا کہ یہ کچھ نہ کچھ تو میری حمایت میں بولیں گے لیکن جب ان منافقین نے حسبِ عادت غداری کی اور دوسرے لوگوں سے زیادہ مخالفت کی تو حضرت عمار بن یاسر ؓ  اچانک یہ صورت حال دیکھ کر گھبرا گئے اور ان کے پاس سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔

قلعہ طائر کی فتح کے وقت منافقین کی غداری

 خلافت فاروقی میں جب مسلمانوں نے حلب شہر کی طرف پیش قدمی کی تو اس وقت اس کے سردار کا نام ”یوقنا “ہوتا تھا۔ حلب کی فتح سے قبل تو وہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے کی پاداش میں اس نے اپنے حقیقی بھائی یوجنا اور ان تمام سپاہیوں کوقتل کر ڈالا تھا جو مسلمانوں سے صلح کرنے کے حامی تھے لیکن حلب کی فتح کے بعد جب اس نے اسلام قبول کیا تو وہ اسلام کا سچا فدا کار اور شیدائی بن گیا۔ یوقنا حلب شہر میں موجود قلعہ کو فتح کرنے کے لیے کارروائی کرنا چاہتا تھا لیکن منافقین کی غداری کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ واقعہ یوں ہوا کہ رومیوں کا سامانِ جنگ سے لدا ہوا جہاز اس زمانہ میں طرابلس پہنچ گیا تھا۔ یہ جہاز قبرص اور کریٹ سے قسطنطین کے لیے سامان حرب لے کر آیا تھا۔ یوقنا نے اس جہاز اور تمام ساز و سامان پر قبضہ کر لیا اس نے فوراً نو سو آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور رومیوں کے اسی جہاز پر سوار ہو کر طائر کی بندرگاہ پر جا اترا۔ یہاں بھی اس نے وہی پرانی چال چلی ۔ اس نے جہاز پر عیسائی جھنڈا لہرا دیا اور یہ ظاہر کیا کہ قیصر روم ہرقل نے اسے قسطنطین کی مدد کے لیے روانہ کیا ہے۔ طائر کے حاکم نے اس کی بڑی عزت کی اور اسے قلعہ میں جگہ دے دی۔ یوقنا رات کے وقت قلعہ پر شب خون مارنا چاہتا تھا۔ مگر شنجون مارنے سے قبل اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے جاسوسی کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوقنا اور اس کے ساتھی گرفتار ہو گئے۔[4]

منافقین کی غداری کا ایک معمولی سا واقعہ ہے کہ جہاں قلعہ طائر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جانا تھا ان کی عادت ثانیہ کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا قلعہ پر قبضہ نہیں ہوا بلکہ الٹا اسلامی سپہ سالار اور اسی کی فوج گرفتار ہوگئی اور مسلمانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے ۔ غداری منافقین کی فطرت ہے اور کسی نے سچ کہا ہے کہ:

"Nature cannot be change"

         فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔“


 عہد نبوی میں منافقین کا کردار

حضرت ابو بکرصدیق ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت عثمان ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

حضرت علی ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار



[1] بخاری ، محمد بن اسماعیل ، الصحيح البخاری ، ص 520 ، ج1

[2] طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ، ج 3، ص 74

[3] ایضاً ، ص242

[4] پیلی، بھیتی، قاری احمد، تاریخ اسلام کامل، ص 227

Post a Comment

1Comments
Post a Comment
.