حضرت عثمان ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

0

حضرت عثمان ؓ کے  عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

 حضرت عثمان ؓ کے  عہد میں منافقین کا سیاسی کردار

خلیفہ ثالث امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان ؓ        کی خلافت کے پہلے پانچ چھ سال نہایت امن و خوشحالی سے گزرے لیکن اس فارغ البالی نے رشک و حسد اور بغض و عداوت کی برائیوں کو بھی جنم دیا۔ دشمنان اسلام کے لیے یہ سنہری موقع تھا۔ چنانچہ  انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بغض و رقابت کے جذبات کو ہوا دی اور اسلامی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے فتنہ وفساد کی ایک ایسی آگ بھڑکائی جو کسی کے رو کے نہ رک سکی ۔ ملت اسلامیہ کی وحدت کو منتشر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ  اسلامی مرکزیت یعنی خلافت میں رخنہ اندازیاں کی جائیں ۔ چنانچہ شر پسندوں نے ہر جانب سے خلیفہ ثالث امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ         کی مخالفت میں تحریکیں شروع کردیں۔[1]

عبداللہ بن سبا کی فتنہ انگیزی

حضرت عمر فاروقؓ چونکہ فطرتاً          رعب و جلال والے تھے۔ لہٰذا ان کے عہد خلافت میں ان کے رعب و دبدبے کی وجہ سے شر پسندوں کو

 فتنہ انگیزیوں کا موقع نہ ملا لیکن حضرت عثمان غنی ؓ             حلیم الطبع اور منکسر المزاج تھے لہٰذا منافقین نے ان کی اس نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع

 کر دیا اور آہستہ آہستہ فتنہ وفساد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ اس فتنے کو سب سے زیادہ بھڑکانے والا شخص ایک نومسلم یہودی

 عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ شخص بڑا ذہین ، مکار اور سازشی تھا۔ چونکہ یہودی مذہب پر قائم ر ہ کر وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

 اس لیے اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف حضرت عثمانؓ   بلکہ در حقیقت سارے عالم اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی ۔ 

ابن سبا نے سب سے پہلے بنی ہاشم اوراہل بیت کا حامی ہونے کی آڑ لے کر حضرت عثمان ؓکے خلاف زبردست پروپیگنڈا شروع کردیا۔ مسلمانوں

 کو اپنے دام و فریب میں پھنسانے اور امت میں تفرقہ ڈالنے کےلیے اس نے بہت سے گمراہ کرنے والے عقائد خود سے گھڑ لیے مثلاً رسول

 اللہﷺ    بھی حضر عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اس دنیا میں پھر سے  تشریف لائیں گے۔ اور ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ    کے

 وصی حضرت علیؓ          ہیں۔ اس لیے جو لوگ اس وقت خلافت پر قابض ہیں وہ سب غاصب اور ظالم ہیں۔ اصلی اور جائز حق صرف حضرت علی ؓ       کا

 ہے۔ چنانچہ اس قسم کے ناپاک ہتھکنڈے استعمال کر کے وہ لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔ حضرت عثمانؓ کی سختیوں اور بدعنوانیوں کی من گھڑت

 داستانیں مشہور کرتا اور حضرت عثمانؓ کی کنبہ پروری کے فرضی قصے بیان کر کے ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو ان کی مخالفت پر ابھارتا۔

عبداللہ بن سبا کو اپنے مقاصد میں توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی ۔ ایرانی فطرتاً             شاہ پرست واقع ہوئے تھے وہ چاہتے تھے کہ جس طرح قدیم ایران میں شہنشاہی ایک خاص خاندان کی ملکیت ہوتی تھی اس طرح خلافت بھی اہل بیت کا موروثی حق بن جائے۔ اس لیے انہوں نے سبائی عقائد کی پرزور حمایت کی۔ ان کے علاوہ اکثر لوگوں نے ذاتی رنجشوں کی بنا پر عبداللہ بن سبا کا ساتھ دیا۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ کچھ مخلص مسلمان بھی محض غلط فہمیوں کا شکار ہو کر اور جھوٹے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سبائی فرقے میں شامل ہو گئے۔ ان سب عناصر نے مل کر ایک بہت بڑی طاقت ور جماعت بنا لی۔ سب سے پہلے ابن سبا نے عراق سے اپنی تحریک کوشروع کیا۔ جہاں سے اسے روز افزوں ترقی ہوئی مگر جب عبد اللہ بن عامر والی ء بصرہ کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے ابن سبا کو وہاں سے نکال دیا۔ پھر یہ کوفہ پہنچا مگر وہاں سے بھی نکالا گیا۔ آخر مصر جا پہنچا جہاں اس کی تحریک کو بہت فروغ حاصل ہوا اور اس نے مصر میں بھی جلد ہی اپنی ہم خیال جماعت تیار کر لی۔[2]

 ڈاکٹر طہ ٰحسین مصر کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں انہوں نے عہد عثمانی میں عبداللہ بن سبا کے کردار کو ایک افسانوی کردار قرار دیا ہے اور وہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ عبداللہ بن سبا نامی کوئی شخص حضرت عثمان ؓاور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا تھا چنانچہ وہ اپنی  مشہور زمانہ کتاب ” حضرت عُثمان تاریخ و سیاست کی روشنی میں

 میں بیان کرتے ہیں:

”  میں نہیں کہہ سکتا کہ حضرت  عثمان ؓکے زمانہ میں ابن سبا کی کچھ بات تھی بھی یا نہیں لیکن اس کا مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی کوئی بات تھی تو

 مسلمان حضرت عثمان ؓکے دور میں اتنے گئے گزرے نہ تھے کہ ان کے افکار اور اقتدارسے ایک اجنبی اہل کتاب شوخی کرتا جو ابھی عہد عثمانی

 میں مسلمان ہوتا ہے اور مسلمان ہوتے ہی تمام اسلامی بلاد میں فتنہ وفساد پھیلانا شروع کر دیتا ہے ۔ [3]

اگر بالفرض ڈاکٹر طہ ٰحسین کے موقف کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ذہن میں خلش سی باقی رہتی ہے کہ عبد الله بن سبا کا جو کردار کتب

 تاریخ مثلاً البدایہ والنھایہ ، تاریخ طبری وغیرہ میں بیان کیا گیا ہے اس کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا ان سب مورخین نے لکیر کا فقیر بنتے ہوئے ایک

 فرضی کردار کو حقیقت کا روپ دیا ہے ؟

" تفكروا وتدبرو اولا تكونوا من الغافلین"

فتنہ پھیلانے والے قافلوں کی مدینہ روانگی

حضرت عثمان غنی ؓ    کے خلاف باغی اور دشمن تقریباً ہر صوبے میں موجود تھے لیکن مصر ، بصرہ اور کوفہ کے گروہ سب سے زیادہ تھے چنانچہ ان تینوں صوبوں سے ایک ہزار کے قریب لوگ اس خیال سے مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے تاکہ یہ سب مدینہ جاکر حضرت عثمان ؓ              کو انکی خلافت سے ہٹا دیں اور پھر حضرت علیؓ ، حضرت زبیر ؓ       اور حضرت طلحہ ؓ          میں سے کسی کو خلیفہ بنا دیں۔ جب یہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو سب نے باہر قیام کیا اور اپنے کچھ نمائندوں کو مدینہ کا حال معلوم کرنے کے لیےمدینہ کے اندر بھیج دیا تاکہ وہ معلوم کر سکیں کہ اگر فوج موجود ہے تو پُر امن طور پر اپنا مطالبہ منوانے کی کوشش کریں اور اگر فوج نہیں ہے تو بغاوت اور فساد پھیلایا جائے وہ نمائندے علیحدہ علیحدہ حضرت زبیرؓ    ، حضرت طلحہ ؓ      اور حضرت علیؓ      کے پاس گئے اور عرض کی کہ ہم اور ہمارے ملک کے باشندے حضرت عثمانؓ  کی خلافت سے خوش نہیں ہیں تو آپ میں سے کوئی ایک خلیفہ بن جائے ہم ابھی بیعت کرنے کو تیار ہیں ۔ یہ تینوں اس بات کو کیسے پسند کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے انکار کر دیا۔ ان تمام نمائندوں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی اور وہ غصے میں وہاں سے چلے گئے حضرت علیؓ               کو محسوس ہوا کہ یہ بات بگڑ رہی ہے تو آپؓ نے بہت نرمی سے سب کو سمجھایا مگر اس کے باوجود مصری گروہ کے نمائندے اس بات پر اڑ گئے کہ اگر مصر کے ظالم اور جابر گورنر عبد الله بن سعد کو عہدے سے نہ ہٹایا تو ہم یہاں سے نہیں جائیں گے ۔ حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ نے حضرت عثمانؓ کو وقت کی مناسبت کے لحاظ سے جا کر سمجھایا کہ ان کے اس مطالبہ کو مان لیتے ہیں ورنہ اگر یہ مدینہ میں داخل ہو گئے تو بہت فساد برپا کر دیں گے۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓنے ان کی یہ بات مانتے ہوئے اپنے رضاعی بھائی عبد الله بن سعد کو مصر کے گورنر کے عہدے سے ہٹا کر محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر بنا دیا اس طرح وہ تمام گروہ مدینہ سے واپس چلے گئے۔[4]

منافقین کا مدینہ پر حملہ

 دن بہ دن حالات خراب ہوتے جارہے تھے تو اگلے سال ماہ شوال میں باغیوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حج کی وجہ سے کافی لوگ تو مکہ روانہ ہو گئے تھے تو کوفہ، بصرہ اور مصر سے ایک ایک ہزار کے لشکر حج کے بہانے مدینہ میں داخل ہوئے ۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے حضرت طلحہ ؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ                 کو اپنے ناپاک ارادوں میں ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن سب نے انکار کر دیا۔ شر پسندوں نے شہر کے اہم ناکوں پر قبضہ کر لیا۔

جمعہ کے دن حضرت عثمانؓ نے خطبے میں ان باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان لوگوں نے مسجد پر حملہ کر دیا ۔ حضرت عثمانؓ     زخموں کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے ۔ صحابہ نے آپؓ کو گھر پہنچایا ۔ حضرت علی ؓنے تیس صحابہ سمیت ان باغیوں کو سمجھا کر واپس جانے پر رضامند کر لیا، چنانچہ باغی مدینہ سے باہر اپنے لشکرگاہ میں واپس چلے گئے۔[5]

خلافت سے دستبرداری

حضرت عثمان ؓ کے خلاف منافقین کی سازشوں کو پڑھ کر یہ بات ذہن میں گھومتی ہے کہ جب سب لوگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ حضرت عثمانؓ

 خلافت چھوڑ دیں تو ان فسادات سے بچنے کے لیے حضرت عثمان ؓنے خلافت کیوں نہیں چھوڑی۔ ان باتوں کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ دنیا

 کے کسی فائدے یا لالچ کی وجہ سے خلافت نہیں چھوڑ رہے تھے بلکہ آپؓ نے ان سے عہد لیا تھا کہ  اللہ آپکو قمیص پہناۓ گے منافقین بہت

 کوششیں کریں گے کہ آپؓ اس کو اتار دیں لیکن آپ اس کو اتارنا نہیں۔ حضرت عثمانؓ آپﷺ کے ساتھ کیے اس عہد کو نبھا رہے تھے

 جب کہ آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو حکم دیا تھا کہ:

”اے عثمان !           اللہ ایک دن معاملات آپ کے سپرد کرے گا اور منافقین اس قمیص کو اتارنے کا ارادہ کریں گے جو آپ کو اللہ نے پہنائی ہے پس

 تم اس کو مت اتارنا۔ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ کہی۔“[6]

آپ ﷺکے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ  کا خلافت سے برطرف نہ ہونا بالکل درست تھا اور آپﷺ کی وصیت کے

 عین مطابق تھا اور وہ لوگ جو آپؓ سے خلافت چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ جہاں کے بھی ہوں بہر حال وہ منافق ہی تھے۔

 

 عہد نبوی میں منافقین کا کردار




[1] ڈاکٹر حمید الدین ، تاریخ اسلام ،فیروز سنز لمیٹڈ لاہور، ت۔ن، حصہ دوم، ص 154

 

[2] ایضاً 156

[3] طہ حسین ، ڈاکٹر (مترجم عبدالحمید نعمانی) حضرت عثمان اور حضرت علی تاریخ اور سیاست کی روشنی میں ، نفیس اکیڈمی بلاسس اسٹریٹ کراچی ، طبع اوّل ، 1961ء ، حصہ اوّل ، ص 169

[4] پیلی، بھیتی ، قاری احمد ، تاریخ اسلام کامل ، ص 281

 

[5] تمنا ، بشیر احمد ، تاریخ اسلام، نیو یک پلیس، اردو بازار لاہور ، ت۔ ن ، ص 116

[6] ابن ماجہ ، محمد بن یزید قزوینی ، سنن ابن ماجہ ، دار السلام للنشر والتوزيع الرياض، الطبعة الاولى ، 1420 ھ : 1999 ء ، ص 18

 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.