حضرت علی ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار
منافقین کی حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت
خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت علی المرتضی کو بر خلافت سنبھالنے کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نہ صرف عوام الناس کی طرف سے بلکہ اکابر صحابہ کرام کی طرف سے بھی قصاص عثمانؓ کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا اور حضرت علی المرتضی مجبور تھے کیونکہ قاتلین عثمانؓ اور ان کی جماعت کثیرہ کا اس وقت اہل مدینہ پر رعب تھا اور حضرت علیؓ کی بیعت کرنے والے یہی لوگ تھے کیونکہ یہ لوگ حضرت علی ؓ کی بیعت کرکے اپنی سیاسی جگہ بنانا چاہتے تھے اور اس کے بغیر انہیں کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حضرت علی ؓ ان حالات کے تحت ان کی بیعت لینے سے انکار بھی نہیں کر سکتے تھی ان سے اجتناب کرنا آپؓ کے لیے مشکل ہوتا جارہا تھا ۔[1]
حضرت شاہ ولی اللہ نے ان پیش آنے والے حالات کو
ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے:
” وقاتلان بجز آنکه پناہی بحضرت مرتضی برند با او بیعت کنند علاجے بنانشند پس در باب عقد خلافت اداز همه بیشتر سعی کردند ودم موافقت اوز رند و کیف ما کان عقد بیعت واقع شد ( قاتلان عثمان کو اس کے بغیر کوئی علاج دریافت نہ ہو سکا کہ جناب مرتضی کی پناہ میں آئیں اور ان سے بیعت کریں اسی بنا پر انہوں نے بیعت مرتضوی کے انعقاد کے لیے بیشتر سعی کی اور ان کی موافقت کا خوب دم بھرا۔ جس طرح بھی ہوا یہ بیعت منعقد ہوئی)۔[2]
منافقین کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ حضرت علی ؓ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے قصاص ضرور لیں گے کیونکہ صحابہ کرام کی جانب سے قصاص کا مطالبہ بڑی شدت سے کیا جار ہا تھا۔ اس لیے انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت علی ؓ کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے حضرت علی ؓ کی بیعت کی اور علوی فوج میں شامل ہو گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر ان کی جان بخشی ہو سکتی تھی تو وہ صرف اسی صورت میں تھی کہ وہ حضرت علیؓ کا اعتماد حاصل کریں۔ چنانچہ وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں منافقین کی سازشیں اپنے عروج پر تھیں اور انہوں نے خلیفہ وقت کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر دیں۔ حضرت علی ؓنے بہت کوشش کی کہ یہ لوگ راہ راست پر آجائیں لیکن ان کی چونکہ فطرت میں ہی نفاق شامل تھا تو اس لیے یہ فتنہ پھیلانے سے باز نہ آئے ۔
منافقین کی فتنہ انگیزی
اہل بصرہ کے وفود امیر المومنین کی خدمت میں اہل کوفہ کی رائے معلوم کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان سب نے بھی صلح پر اتفاق رائے ظاہر کیا تھا۔ لیکن انہیں لوگوں میں بعض ایسے بھی تھے جن کو یہ مصالحت ناگوار گزر رہی تھی۔ چنانچہ امیر المومنین نے لشکریوں کو جمع کیا اور خطبہ دیا اور اگلے دن کوچ کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ان لوگوں کی نسبت جو محاصرہ عثمان میں شریک تھے یہ حکم دیا کہ وہ ہمارے گروہ سے نکل جائیں۔ ہمارے ساتھ نہ چلیں ۔ اہل مصر کو یہ مصالحت ناگوار گزری۔ ابن السودا ( عبد اللہ بن سبا کی کنیت تھی ) ، خالد بن ملجم اور اشتر ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے حضرت عثمانؓ کی مخالفت کی تھی اور بغاوت کی تھی ایک مقام پر جمع ہوئے۔ علباء بن الہیشم، عدی بن حاتم، سالم بن ثعلبہ اور شریح بن اوفی وغیرہ جوان بلوائیوں کے سردار تھے اس جلسہ میں شریک تھے۔ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس وقت تک حضرت طلحہ ؓ اور حضرت ز بیر ؓ کی رائے قصاص لینے کی تھی لیکن اب تو امیرالمومنین کی رائے بھی قصاص لینے کی ہو گئی ہے اور وہ کتاب اللہ سے خوب واقف ہیں۔ امیر المومنین نے جو فرمایا وہ سن چکے ہو۔ پس اگر مصالحت کریں گے اور باہم متفق ہو جائیں گے تو ہمارے ساتھ کیا کچھ نہ کریں گے؟ اُشتر نے کہا ”واللہ ان سب کی رائے ہماری بابت ایک ہی ہے۔ اگر مصالحت کریں گے تو ہمارے خون پر مصالحت کریں گے۔ پس ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت علی ؓ اور حضرت طلحؓہ پر حملہ کرکے انہیں بھی عثمانؓ کے پاس پہنچا دیں ۔ اس کے بعد پھر خود بخود سکون ہو جائے گا۔“
ابن السودا نے جواب دیا کہ تم نے ذی وقار میں ہزاروں کی جمعیت دیکھی ہے اور حضرت علیؓ کے ہمراہ بھی پانچ ہزار افراد ہیں تم صرف ڈھائی ہزار جمع ہو تم اپنے خیال ہرگز پورے نہیں کر سکتے۔ عالبابولا :
”بہتر یہ ہے کہ فریقین کو چھوڑ دو یہاں تک کہ کوئی ان میں سے تمہارا حاکم بن جائے۔ ابن السوداء نے کہا کہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ اگر تم ان دونوں فریقوں سے علیحدہ ہو جاؤ گے تو تم کو ایک ایک کر کےچن لیں گے۔ عدی بن حاتم نے جواب دیا کہ ” ہم نہ اس صلح سے راضی ہیں اور نہ اس سے کبیدہ خاطر اگر وہ اتفاقاً واقع ہونے والا ہے وہ اگر واقع ہوگیا اور لوگ اس مقام پر اتر پڑے تو ہمارے پاس سوار بھی ہیں، آلات حرب بھی ہیں۔ اگر وہ ہماری طرف بڑھیں گے تو ہم بھی ان کی طرف بڑھیں گے اور اگر وہ ہم پر حملہ کریں گے تو ہم بھی ان پر حملہ کریں گے۔ سالم اور شریح نے رائے دی کہ اس وقت کہیں چلے جانا چاہیے۔ ابن السوداء نے کہا "اے بھائیو ! تمہاری عزت اسی میں ہے کہ لوگوں میں مل جل کر انہیں آپس میں لڑا دو، میرے نزدیک بہتر ہو گا کہ کل جب فریقین جمع ہوں تو جس طرح ممکن ہو کسی حکمت سے لڑائی چھیڑ دو، لڑائی شروع ہو جانے پر وہ لوگ تم سے غافل ہو جائیں گے اور تم لوگ جس کو مکروہ جانتے ہو اس سے محفوظ رہو گئے الغرض حاضرین نے ابن السوداء کی رائے پسند کی اور اسی اتفاق پر علیحدہ ہو گئے۔[3]
یہ واقعہ جنگ جمل کا ہے جب فریقین صلح پر راضی ہو گئے تھے اور اس صلح کے نتیجہ میں منافقین کو اپنی شامت اعمال واضح نظر آ رہی تھی اس لیے انہوں نے آپس میں سر جوڑ کر مشورہ کیا کہ اگر صلح نافذ ہوئی تو پھر ہمیں چن چن کر قتل کیا جائے گا لہذا اس صلح کو نافذ نہ ہونے دو اور پھر منافقین یہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق اور محبت و یگانگت کے ساتھ رہیں۔ چنانچہ انہوں نے سازشوں کے بہت جال بچھائے جس کے نتیجہ میں جنگ جمل ہوئی اور مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائیں اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔
جنگ جمل اور منافقین کا کردار
جنگ جمل کے فریقین میں صلح کے لیے بات پکی ہوگئی تھی اور جنگ و پیکار کے خیالات اور ارادے طرفین کے سرداروں نے بتدریج اپنے دلوں سے نکال ڈالے تھے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی ؓ کی طرف سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی خدمت میں اور حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیؓر کی طرف سے محمد بن طلحہ ؓحضرت علیؓ کی خدمت میں آئے اور صلح کی تمام شرائط تیسرے دن شام کے وقت طے اور مکمل ہو گئیں اور یہ بات اقرار پائی کہ کل صبح صلح نامہ لکھا جائے اور اس پر فریقین کے دستخط ہو جائیں۔ دونوں لشکروں کو ایک دوسرے کے سامنے پڑے ہوئے تین دن گزر چکے تھے۔
تو حضرت علی ؓنے ان کی فتنہ پروازیوں سے چھٹکارا پانے اور ان کو ان کی شرارتوں کا سبق سکھانے کا ارادہ فرمایا اور نہروان کے مقام پر ان سے جنگ کی اور ان کا خاتمہ کر دیا۔ یوں پہلی دفعہ منافقین اپنی ہی سازشوں کے بھینٹ چڑھ گئے۔