عہد نبویﷺ میں روایتِ تعلیم مکی اور مدنی دور

2

عہد نبویﷺ میں روایتِ تعلیم

 

عہد نبوی میں روایتِ تعلیم

مکی عہد نبوت کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز

 مکہ مکرمہ میں کوئی اسی جگہ نہیں تھی جہاں تبلیغ کا کام کیا جا سکتا ۔ آپﷺ کی ذات ہی رہنمائی کا ذریعہ تھی۔ اس وقت کفار مکہ بہت ظلم وستم

 کرتے تھے ۔ جس کی وجہ سے صحابہ کرام چھپ کر ہی قرآن پاک کو پڑھتے ۔   رسول ﷺ  کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ   ، خباب بن الارتؓ 

اور دیگر صحابہ بھی قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔مکی دور کے چند دعوتی و تبلیغی مراکز درج ذیل ہیں۔

 درس گاہ بیت ابو بکر

                                                                                                                  مکی دور میں دعوت و تبلیغ کا ابتدائی مرکز حضرت ابو  بکر  کا گھر تھا۔ آپ نے گھر کے صحن کومسجدبنارکھا تھا۔ ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میں آپ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔ عام طور پر آپؓ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفارِ مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گرد جمع ہوکر قرآن سنتے۔ جس سے وہ خود بخود اسلام کی طرف متوجہ ہوتے۔ یہ صورتِ حال مشرکینِ مکہ کو   منظور نہ تھی چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکر  کو سخت اذیت میں مبتلا کیا۔جس کی وجہ سے آپنے مکہ سے ہجرت کا ارادہ کرلیا مگر راستے میں قبیلہٴ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا اے ابوبکرؓ                            کدھر کا ارادہ ہے؟ آپنے فرمایاقوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔اب دنیا کی سیر کروں گا اور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے رب کی عبادت کروں گا۔مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کر آپکو واپس لے آیا کہ آپجیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور پھر حضرت صدیقاکبر کے لیے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکرواپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی صحیح بخاری میں ہے:

”ثم بدأ لابی بکرؓ فابتنی مسجدا بفناء دارہ وبرز فکان یصلی فیہ ویقرء القرآن“

’’پھر ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی،اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے ‘‘۔[1]

    مسجد ابی بکر میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا ۔ یہ مسجد تعلیم و تربیت اور دینی مسائل سیکھنے کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ تھی اوریہیں سے تبلیغی خدمات انجام دی جاتی تھیں، نیز یہاں کفار مکہ کے بچے، بچیاں اور عورتیں قرآن   کو سنتے تھے اور اسلام کی طرف راغب ہوتے تھے۔

درس گاہ بیتِ فاطمہ

        اسی طرح فاطمہ بنت خطاب کا گھر بھی دینی، تبلیغی اور دعوتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ حضرت عمربن خطاب کی بہن ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعید بن زید سمیت اسلام قبول کرلیا۔ یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خباببن الارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ حضرت عمر ایک دن اسلام لانے سے پہلے تلوار لیے ہوے رسول اللہ ﷺکے قتل کے ارادے سے نکلے لیکن راستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مصروف دیکھا  ابن ہشام نے لکھاہے :

”وَعِنْدَھُمَا خباب بنُ الارْتِ مَعَہ صحیفة فیھا طہ یقرھما ایاھا”[2]

ان دونوں کے پاس خباب بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہٴ طہ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے۔

  حضرت عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا، ایک خباب بن الارتاور دوسرے کا نام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارت میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔   اس سلسلہ میں حضرت عمر     کا یہ بیان ہے:

”وکان القوم جُلوساً یقروٴن صحیفةً معھم “

”اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا“ [3] 

        بیت فاطمہ بنت خطاب کو مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم و اشاعت کا مرکز کہا جاسکتا ہے جہاں کم از کم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔ اور اگر حضرت عمرکے بیان میں لفظ ”قوم“                         پر غور  کیا جائے تو یقینی طور پر یہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتا ہے۔

درس گاہِ شعب ابی طالب

            کفارِ مکہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے ظلم وستم  سے اسلام کی اس تحریک ختم کر دے گے ۔لیکن جب ان کی تمام کوششوں  کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہاور عمرجیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔  اس وجہ سے کفار مکہ اور بھی  زیادہ پریشان ہو گئے  ۔ چنانچہ ان لوگوں نے   یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہ ﷺاور ان کے خاندان کو   تباہ کردیا جائے۔ چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے  ۔ یہ معاہدہ لکھ کر کعبۃ اللہ کے دروازے پر لٹکادیاگیا۔[4]  حضرت ابو طالب مجبور ہوکر رسول اللہ ﷺاور تمام خاندان بنی ہاشم سمیت شعب ابی طالب میں محرم ۷/نبوی میں محصور ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے خاندان سمیت اس  میں تین سال بسر کیے۔ ایامِ حج میں  تمام لوگوں کو امن کی خواہش تھی۔ اس لیے حج کے موسم میں رسول اللہ ﷺشعب ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائلِ عرب کو دعوت دیتے۔جبکہ باقی اوقات میں آپ ﷺاسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔ شعب ابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ صحابہٴ کرام بھی موجود تھے ۔

درس گاہِ دارارقم

            حضرت ارقم بن ابی ارقم ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔   ابن الاثیرکے مطابق حضرت ارقم کا قبول اسلام میں دسواں یا بارہواں نمبر ہے ۔[5]  دارِارقم   کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مکان ”دارُالاسلام“ کے  بابرکت لقب سے بھی یاد کیا جا تا ہے ۔[6]       مشرکینِ مکہ جب اسلام کے پھیلاوٴ کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انھوں نے کمزور مسلمانوں پر زندگی گزارنا تنگ کردیا۔

رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے اور تلاوتِ قرآن سے روکتے  تھے۔  ان کا رویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا تھا۔ حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لیے  آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔

   ایک دفعہ مسلمان مکہ کی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انھیں دیکھ لیا اور ان کو سخت سست کہنا شروع کیا۔ بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاصنے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے بارے میں بہایا گیا“۔[7]

 یہ وہ مشکل حالات تھے جن میں رسول اللہ ﷺ نےمسلمانوں  کے ساتھ دارارقم  میں پناہ لی۔تاکہ مسلمان   اپنے رب کی عبادت کر سکیں۔چنانچہ جلد ہی  دار ارقم دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ جہاں پر نہ صرف لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا، بلکہ ان کومناسب تعلیم  بھی دی جاتی تھی۔ابن سعد  اپنی کتاب اسدالغابہ میں   لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺابتدائے اسلام میں اس مکان میں رہتے تھے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگ یہاں مشرف بہ اسلام ہوئے “۔[8] امام طبری نے بھی مکی عہدِ نبوت میں دارارقم کو دعوتی،تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیاہے۔  حضرت ارقم   کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَکَانَتْ دَارُہ عَلَی الصَّفَا، وَھِيَ الدَّارُ الَّتِي کَانَ النَّبِیُّ ﷺیَکُوْنُ فِیْھَا فِیْ أوَّلِ الاِسْلاَمِ وَفِیْھَا دَعَا النَّاسَ الیَ السَّلامِ فَأسْلَمَ فِیْھَا قَوْمٌ کَثِیْرٌ “

”حضرت ارقمکا گھر کوہِ صفا پر واقع تھا، آغازِ اسلام میں رسول اللہ ﷺاسی گھر میں رہا کرتے تھے، یہیں آپ ﷺلوگوں کودعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔[9]

 تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دارارقم تعلیمی و تربیتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ مکی عہد میں دعوتی انتظام   کا بھی مر کز تھا۔

مدنی  عہد نبوت کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز

جب قریش کی اذیت بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ ہجرت کرگئے اور وہاں دس سال گزارے اس دور کو مدنی دور کہا جاتا ہے۔

تحفظ دین اور حفاظت اسلام کے لئے وحی کی طرف سے حکم کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدنی زندگی کا آغاز کیا۔اس دور میں

 مصائب ختم نہیں ہوئے تھے بس ان کی نوعیت بدل گئی تھی۔یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر پھر

 بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا۔آپ ﷺکی کوشش تھی کہ قریش کا ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ وہ اسلام

 کی مزاحمت سے باز آ جائیں اور اسلام قبول کرلیں۔ اس دور میں بہت سے غزوات بھی پیش آئے۔ سب سے پہلے اس دور میں بت پرستی کو ختم

 کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی دعوت دی گئی اور سازشوں کا خاتمہ کیا گیا جو مختلف قبیلوں کی طرف سے کی جا رہی

 تھیں۔اور صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت پر حضور ﷺ نے خاص توجہ فرمائی جس کا آغاز مسجد نبوی سے کیا گیا ۔

اصحابِ صفہ

صفہ چبوترے یا پلیٹ فارم کو کہتے ہیں لیکن یہاں صفہ سے مراد وہ چبوتر ہ ہے جو  حضورﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی کے مشرقی حصہ میں تھا۔

 اس چبوتر ہ پر سائبان ڈال دیا گیا تھا تاکہ طلبا  ءموسمی اثرات سے محفوظ رہ سکیں ۔  [10]

مدینہ منورہ آمد کے بعد رسول اللہ ﷺنے سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی۔مسجد نبوی کے ایک گوشے میں ایک   چبوترہ (صفہ) بنایا گیا جس پر وہ مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مدینہ منورہ آکر رہنے لگے تھے۔ جو نہ تو کچھ کار و بار کرتے تھے اور نہ ان کے پاس رہنے کو گھر تھا۔ مکہ مکرمہ اور دیگر علاقوں سے دین  کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے آنے والے صحابہ کرام بھی یہاں قیام کرتے تھے۔  صفہ ان غریب   صحابہ کرام کے رہنے جگہ تھی جنہوں نے اپنی زندگی تعلیمِ دین، تبلیغ اسلام، جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
مدنی دور میں مذہبی تعلیم و تربیت کے دو طریقے تھے۔ ایک غیر مستقل، جس میں مختلف قبائل کے آدمی مدینہ آکر چند دن قیام کرتے اور ضروری مسائل سیکھ کر واپس چلے جاتے اور اپنے قبائل کو جاکر تعلیم دیتے۔  

دوسرا طریقہ مستقل تعلیم و تربیت کا تھا اور اس کے لیے صفہ کی درس گا مخصوص تھی۔ اس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے جو دنیا کے معاملات  سے بے نیاز تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو دینی تعلیم و تربیت اور عبادت   کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ 

اصحابِ صفہ کے لیے اساتذہ کا تقرر

                                                                    اصحاب صفہ کے اولین معلم تو خود رسول اللہ ﷺ کی ذات   تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اقبل ابوطلحۃ رضی اللہ عنہ یوما فاذا النبی ﷺقائم یقری اصحاب الصفۃ علی بطنہ فصیل من حجر یقیم بہ صلبہ من الجوع“
 ایک دن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاصحاب صفہ کو کھڑے قرآن پڑھا رہے ہیں، آپ صلی  اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر کا ٹکڑا باندھا ہوا تھا تا کہ کمر سیدھی ہوجائے ۔ [11]

رسول اللہ ﷺجب تعلیم و نصیحت سے فارغ ہوکر تشریف لے جاتے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھما حلقہ میں بیٹھ کر تعلیم کے سلسلہ کو اسی طرح جاری رکھتے۔ پھر جب رسول اللہ ﷺدوبارہ تشریف لاتے تو لوگ خاموش ہوجاتے۔ آپ ﷺتشریف فرما ہونے کے بعد فرماتے کہ اسی عمل میں مصروف رہیں اور اس کو جاری رکھیں۔ کبھی کبھار حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی تعلیمی حلقہ سنبھال لیتے تھے۔
رسول اللہ ﷺکے علاوہ کئی مستقل صحابہ  بھی اصحاب صفہ کی تعلیم و تربیت پر متعین تھے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
’’علّمت ناسا من أھل الصفۃ القرآن و الکتاب فاھدیٰ الیّ رجل منھم قوسا “[12]

” میں نے اصحاب صفہ میں سے چند لوگوں کو قرآن مجید پڑھایا اور لکھنے کی تعلیم دی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی “
اسی طرح حضرت عبداللہ بن سعید بن العاص جو خوشخط تھے اور زمانہ جاہلیت میں بھی کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے، اصحاب صفہ کو لکھنا سکھاتے تھے۔

اوقات تعلیم

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنماز فجر ادا فرمالیتے تو ہم لوگ آپ ﷺکے پاس بیٹھ جاتے اور ہم میں سے کوئی آپ سے قرآن کے بارے میں سوال کرتا، کوئی فرائض کے بارے میں دریافت کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر معلوم کرتا تھا۔  
سماک بن حرب نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ ﷺکی محفل میں بیٹھا کرتے تھے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں، میں بہت زیادہ آپ ﷺکی مجلس میں شریک رہا کرتا تھا۔ جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا تھا آپ ﷺمصلیٰ پر رہتے تھے اور طلوع آفتاب کے بعد اٹھ کر مجلس میں تشریف لاتے تھے اور مجلس کے درمیان صحابہ زمانہ جاہلیت کے واقعات بیان کرکے ہنستے تھے اور آپ ﷺمسکرادیتے تھے۔[13]
کچھ مصروفیت کی وجہ سے   بعض حضرات کو دن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔اس بنا پر ان کی تعلیم کا وقت رات کو مقرر کیا گیا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ستر کے قریب اصحاب صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔
’’فکانوا اذا جنّھم اللیل انطلقوا الی معلم لھم بالمدینہ فیدرسون اللیل حتی یصبحوا‘‘
”جب رات ہوجاتی تھی تو یہ لوگ مدینہ میں ایک معلم کے پاس جاتے اور رات بھر پڑھتے حتیٰ              کہ صبح ہوجاتی“[14]

طریقہ تعلیم

ابتدا میں مجلس میں طلبہ کے بیٹھنے کا کوئی خاص انتظام اور طریقہ نہ تھا، جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے باقاعدہ ایک حلقہ بنوایا اور سب لوگ ایک ساتھ بیٹھنے لگے۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے:
’’دخل رسول اللہ ﷺالمسجد و ھم حلق فقال صلی اللہ علیہ وسلم: مالی اراکم عزین “[15]
 ”رسول اللہ ﷺمسجد میں داخل ہوئے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے جدا جدا حلقے تھے، آپ ﷺنے فرمایا کہ کیا بات ہے تو لوگ جدا جدا ہو (یعنی ایک ساتھ بیٹھو) “
رسول اللہ ﷺاپنے تمام حاضرین مجلس کو اس طرح تعلیم دیتے تھے کہ عالم، جاہل، شہری، بدوی، عربی، عجمی، بوڑھے، بچے، جوان پوری طرح فیض اٹھاتے تھے اور آپ ﷺکی ہر بات سننے والے کے دل میں اترجاتی تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
              ”انہ کان اذا تکلم بکلمۃ اعاھا ثلاثا حتی تفھم عنہ و اذا أتی علی قوم فسلم علیھم ثلاثا‘‘  [16]
                                       ”رسول اللہ ﷺجب کوئی حدیث بیان کرتے تو اس کو تین بار کہتے تھے تا کہ سمجھ لی جائے اور جب کسی جماعت کے    پاس جاتے تو ان کو تین بار سلام کرتے تھے“۔

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو مسجد نبوی کی اس درس گاہ کے معلم تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے قریب اہل مجلس کے سامنے جلدی جلدی حدیثیں بیان کرنے لگے۔ اس وقت ام المومنین حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا نماز میں مصروف تھیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہا نماز سے فارغ ہوئیں تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس ختم کرکے جاچکے تھے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوہریرہ مل جاتے تو میں ان کے جلدی جلدی حدیث بیان کرنے پراعتراض کرتی، اس کے بعد فرمایا:
                    ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یسرد الحدیث سردکم‘‘ [17]
                                                                        ” رسول اللہ ﷺاس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ اگر شمار کرنے والا چاہتا تو شمار کرلیتا“۔
 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ آپ بات ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں کہتے کہ سننے والوں کے دل میں بیٹھ جائے، یاد کرنے والے یاد کرلیں اور لکھنے والے لکھ لیں۔ 

  نو مساجد میں درس و تدریس

  آپﷺ کے دور میں  مساجد ہی کو تعلیمی ادارے کی حیثیت دے دی گئی تھی ۔مسجد نبوی میں درس و تدریس  کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد

 آہستہ آہستہ حضو رﷺنے کئی اور مقامات پر ایسے ادارے کام کرنے شروع کیے۔ مختلف حوالوں سے ایسی نو مساجد کی تصدیق ہوتی ہے

 جنہیں تعلیمی مقاصد کے لیے ہیں کیا جاتا تھا ۔[18]    ابتدائی دور میں قائم ہونے والی ان مساجد کے نام یہ ہیں۔ 

                                                                                                           ا۔ مسجد بنی عمرو بن مبذول                                                          ۲۔     مسجد بنی ساعدة                                                                                                                                                                                                                        ۳۔مسجد بنی عبید                                            

                                                                                                           ۴ ۔  مسجد بنی زریق                                                                                                                                                           ۵ ۔                                 مسجد غفار                                                           ۶۔    مسجد جھینۃ 

                                                                                                            ۷                     ۔      مسجد بنی رایح من عبد الا شھل                                                                                         ۸            ۔   مسجد اسلم                                          ۹۔ مسجد بنی سلمۃ

  یہ سلسلہ   بڑھتا گیا اور کئی ایسے مدر سے بھی قائم ہوئے جنہیں انصار مدینہ نے تعمیر کیا۔ ان اداروں میں درس و تدریس کے فرائض بھی انصار

 ہی سرانجام دیتے تھے ۔    کیونکہ مسلمانوں نے ابتدا ہی سے مساجد اور درسگاہ میں فرق نہیں رکھاتھا ۔   اس تعلق کی وجہ سےمسلمانوں  میں

 تعلیمی ا داروں کی کمی کا مسلہ  سامنے نہیں آیا ۔  اور تعلیم عام کرنے کا عمل بھی    جاری رہا ۔

مسجد بحیثیت درسگاه

 حضور ﷺکے عہدمیں لاتعداد   مثالیں    ملتی ہیں کہ مساجد کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔  حضورﷺ نے تعلیمی اداروں اور

 مذہبی اداروں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دیا۔ مساجد کو درسگاہ کا درجہ دینے سے مسلمانوں کے ابتدائی عہد میں ایک تو تعلیم کی

   اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے دوسری طرف   تعلیمی اداروں کی کمی کا مسلہ بھی حل ہو جاتا ہے ۔

 مدینے میں مسجد نبوی اور اس کے ارد گرد  نو مساجد کی تعمیر اور و ہاں درس و تدریس کے علاوہ کئی مساجد اور بھی قائم کی گئی تھیں ان میں سے

 ایک مسجد اس وقت قائم ہوئی تھی جب حضرت مصعب بن زبیر ؓ          کو مکے سے مدینے روانہ کیا گیا تھا ۔آپ کو حضور ﷺنے خود اس 

لیےمدینے بھیجا کہ وہاں جاکر لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں ۔  مدینے کی مسجد بنی زریق   سب سے پہلی مسجد تھی جہاں قرآن پڑھا گیا۔ دوسری

 درسگاہ  دارالقریٰ کے نام سے مشہور ہوئی اور اس کا قیام سنہ2 ہجری میں ہوا۔  حضور ﷺکے عہد میں ہی سترہ مساجد ہو چکی تھیں ۔ 

ان سترہ مساجد کے نام یہ    ہے ۔[19]

           ۱۔  مسجد تبوک                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                             ۲  ۔مسجد شیشہ مداراں                                  ۳               ۔        ذات الذراب

                                                                                                                                                                                                                                          ۴           ۔      مقام اخضر                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        ۵       ۔                   ذات الخطی                                      ۶۔    مقام بالا

۷۔       بترا                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ۸۔                                     شق تا را                                          ۹۔        ذی الجیفہ

۱۰۔  حجر                                                                             ۱۱۔ صدر حوضی                                                                                                        ۱۲۔   صعید 

 ۱۳۔   وادی القریٰ                                                                                                                                                                           ۱۴۔  مقام رقعہ                                   ۱۵- زی مروه

۱۶۔  قیفا                                         ۱۷۔  ذی خشب

                                                                                                                               یہ ستره مساجد بہت ہی معروف مساجد تھیں۔   یہ سب مدینے اور تبوک کے درمیان قائم تھیں۔     اور ان میں تعلیم و تدریس کی نگرانی

 آپ ﷺ      خود کرتےتھے ۔ غرض   مسلمانوں نے حضور ﷺکے عہد ہی سے مساجد کو درسگاہ کی حیثیت سے استعمال کرنا شروع کیا اور آپ

 ﷺکی زندگی میں ایسی مساجد بڑی تعداد میں قائم کی جاچکی تھیں ۔[20]

 



[1] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری ، کتاب الکفالۃ،باب جوار ابی بکر الصدیقؓ فی عہد النبیﷺ وعقدہ ، ،ص397 ،ح 2297

[2] ابن ہشام، اسلام عمر بن الخطاب ج1 ، ص   382

[3] السمہودی،نورالدین علی بن احمد،السیرۃ الحلبیۃ،،دارالنفائس،الریاض،ج2 ،ص   13

[4]  ابن ہشام، خبرالصحیفة ۔  ج 1، ص  288

[5]     اسد الغابہ، تذکر ارقم بن ابی ارقم،ج1، ص60

[6] ابن سعد تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ۔ ج 3،ص243

[7]  ابن ہشام، مباداة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ وماکان منھم  ،  ج1،  ص 236

[8]   المستدرک تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ،ج3، ص 502

[9]    الطبری، محمد بن جریر۔ تاریخ الامم والملوک“ ج3  ،ص 230

[10]  حمیداللہ, خطبات بہاولپور، دی اسلامی یونیورسٹی   آف بہاولپور. 1401ھ

[11]  الاصفہانی ،ابو نعیم ، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 1997ء ، ذکر اہل الصفۃ،   ج1، ص419

[12]     ابو داؤد، سلیمان ابن اشعث ،سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب کسب المعلم، ص:495، ح:3416۔۔۔حنبل، امام احمد ، المسند، حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ، ص429، ح:22181

[13] الرودانی،محمد بن سلیمان ، جمع الفوائدمن جامع الأصول ومجمع الزوائد، کتاب العلم۔ ج1، ص 48

[14]   حنبل ، امام احمد ،المسند، مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ، ص598 ،ح:11994

[15] سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التحلق، ح:4823، ص:682۔

[16]  صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ، ص22، ح:95

[17] سنن ابی داؤد، کتاب العلم، باب فی سردالحدیث، ص:524، ح:3655

[18]  محمد حمید اللہ ، عہد نبوی کا نظام حکمرانی ،مکتبہ ابراہیمیہ ،حیدر آباد دکن ، 1949ء ، ج 1، ص212

[19]  محمدبن ہشام ،سيرة ابن ہشام، مترجم شیخ محمد اسماعیل ۔ مقبول اکیڈمی لاہور، 1961ء ، ص542

[20] شیخ ، محمد یٰسین ، عہد نبوی کا تعلیمی نظام ، ارشد بُک سیلرز ،میر پُور آزاد کشمیر ،1995ء، ص 83

Post a Comment

2Comments
Post a Comment
.