منافق کی نشانیاں حدیث کی روشنی میں

0

منافق کی نشانیاں حدیث  کی روشنی میں

منافق کی نشانیاں حدیث کی روشنی میں 

 (1) جھوٹ بولنا             

                                                                                                                حضور نے منافقین کی بہت سی علامات بیان فرمائی ہیں جن میں سے۔ جھوٹ بولنا بھی شامل ہے۔آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ:                                                            

                                 ”تین چیزیں جس شخص میں ہوں۔ گی بس وہ منافق ہے۔ اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ایک وہ شخص جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرے ۔“ [1]

آپ کے اس فرمان میں منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی گئی ہیں۔ پر وہ شخص منافق ہے جس میں یہ تین نشانیاں  پائی جائیں گی

پہلی یہ کہ منافق جب بھی بات کرے گا ہمیشہ جھوٹ بولے گا ۔

 دوسری یہ کہ منافق وعدہ کی خلاف ورزی لے گا۔

 تیسری یہ کہ اگر ضرورت کے وقت منافق شخص کے پاس امانت رکھوا دی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے گا۔

یہ تینوں باتیں منافق کی فطرت میں شامل ہیں. اور اس کی یہ بری عادت اسے معاشرے میں رسوا کر دیتی ہے۔

(2)          گالیاں دینا            

منافق کی علامات میں بری علامت گالی دنیا بھی ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ:

”چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس کو ترک کر دے. جب اس کے پاس امانت رکھی جائے۔ تو خیانت کرے، اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔اور جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔اور جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔“[2]

اس حدیث میں منافق کی چار علامات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں پہلی تین کا ذکر ہو چکا ہے۔

اس حدیث میں جس چوتھی علامت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے لڑائی جھگڑے یا چھوٹی چھوٹی بات پر گالی دینا کتنی  گھٹیااور قبیح حرکت ہے کہ کسی کو بھی گالیاں دینا۔ آپ ﷺ نے اس بری حرکت کو منافق کی علامت قرار دیا ہے۔ اول تو جھگڑا کرنے والے شخص کو معاشرے میں کوئی پسند نہیں کرتا اور پھر اگر گالیوں کا بھی استعمال کیا جائے تو اس شخص کی تھوڑی سی بھی عزت نہیں رہتی۔ اس لیے گالی دینا بہت برا فعل ہے۔

(3)                       لالچی ہونا 

منافق کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ لالچی ہوگا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا :

منافق کی مثال حیران[3] بکری کی طرح ہے کبھی اس ریوڑ کی طرف اور کبھی دوسرے ریوڑ کی طرف۔ “[4]

معاشرے میں منافق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ منافق شخص ہر وقت موقع کی تلاش میں لگا رہتا ہے کہ کس طرف سے اسے زیادہ دنیاوی فائدہ حاصل ہوگا ۔وہ لالچ کے مارے کبھی مسلمانوں کے ساتھ مل جائے گا تاکہ مال غنیمت اور صدقہ و خیرات سے حصہ حاصل کر سکے اور کبھی کفار کے ساتھ مل جائے گا۔ تاکہ ان سے مال حاصل کر سکے ۔ حقیقت میں منافق شخص نہ کفار کا خیر خواہ ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا۔

عائر لغت میں اس بکری کو کہتے ہیں جو نر کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ادھر پھرتی ہے اور منافق میں اسی طرح اپنا پیٹ بھرنے اور دنیاوی کے لیے کبھی اہل ایمان کے ساتھ تو کبھی کفار کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ [5]

(4)       بد اخلاقی 

آپﷺ نے منافق کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :

”دو خصلیں منافق میں جمع نہیں ہو سکتیں حسن سلوک اور دین کی سمجھ“[6]

آپﷺ نے کتنے خوبصورت انداز میں منافق کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ منافق کو پہچاننے کے لیے صرف جھوٹ، گالی اور نماز کے چھوڑ دینے کو ہی معیار نہیں بنانا چا ہیے بلکہ اس کے اخلاق و کردار کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ منافق لوگوں سے حسن سلوک کا معاملہ نہیں کرتا. لہذا اس حدیث کی رو سے جس شخص کا اخلاق اچھا نہیں ہوگا اسے منافق کہا جا سکتا ہے۔

(5)                انصار صحابہ سے بغض 

                                                                            منافق کی نشانی بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ انصار سے بغض کرتا ہے اور مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ انصار سے محبت کرتا ہے ۔ “[7]

آپ نے مومن اور منافق کی پہچان کے لے بتایا ہے کہ جو خالص مومن ہے وہ انصار صحابہ سے محبت کرے گا جبکہ منافق حضرت علیؓ اور حضرت عثمان ؓ سے بغض رکھے گا اور ساتھ ہی مدینہ کے جو انصار صحابہ ہیں ان سے بھی بغض رکھے۔ گا۔ یعنی حضرت علیؓ اور عثمان ؓ سے  بغض کرنے والا تو منافق ہے ہی  مگر کوئی شخص    انصار صحابہ سے بغض رکھے اور ان دونوں سے محبت کا دعویٰ کرے تو اس کے منافق ہونے میں کوئی شک نہیں۔

جلیل القدر صحابی حضرت براء بن عازب ؓکہتے ہیں کہ :

میں نے سنا کہ آپﷺ انصار کے حق میں فرمارہے تھے کہ نہیں دوست رکھتا ان  (انصار) کو مگر مومن اور نہیں بغض رکھتا ان سے مگر منافق “   [8]

  اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار  صحابہ سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔

 (      6)        جھگڑا کرنے والا 

حضرت عمر ؓ      نے منافق کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

حضرت زیاد بن حدیر ؓ       سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ         نے مجھ سے کہا کہ کیا تو جانتا ہے کہ اسلام کو کونسی چیز گراتی ہے؟ حضرت زیاد بن حدیرؓ           کہتے ہیں کہ میں نے کہا نہیں۔   تو حضرت  عمر ؓ                        نے فرمایا کہ عالم کو ذلیل کرنااور منافق کا کتاب کے بارے میں جھگڑا کرنا اور گمراہ سرداروں کا حکم اسلام کو گرا دیتا ہے ۔ “[9]

حضرت عمر نے اپنے اس فرمان میں قرآن پاک کے بارے میں لوگوں سے جھگڑا کرنے والے کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کے بارے میں شک و شبہ کا شکار رہتا ہے اور اسے قرآن کے احکام اپنے خلاف جاتے معلوم ہوتے ہیں تو این اس لیے وہ اس کی خود سے وضاحت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ منافق شخص جہالت اور نادانی کی وجہ سے اہل علم سے بحث کرتا ہے جس کی بناء پر مخالفین کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا اور وہ اسلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے بارے میں جھگڑا کرنے والے کے دل میں بھی نفاق جیسی بیماری ہو سکتی ہے۔

 (        7)        حضرت علیؓ سے بغض 

خلیفہ راشد حضرت علیؓ فرماتے کہ ہیں   کہ  مجھے رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نشانی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :

” تم سے صرف ایک مومن محبت کرتا ہے اور صرف ایک منافق تم سے نفرت کرتا ہے۔“[10]

منافق کی نشانیوں میں سے نشانی ہے۔ کہ وہ حضرت ت علیؓ سے بغض، حسد اور کینہ رکھے گا۔ اس حدیث میں جہاں حضرت علیؓ کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ وہاں اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ علی سے مومن محبت اسی صورت میں رکھتا ہے کہ آپ ؓ  کے ارشادات اور ان کی سیرت طیبہ پر عمل کرتا ہے۔لیکن جو شخص حضرت علی ؓ         کی سے محبت کا دعوہ کرے لیکن آپ کے فرامین پر عمل نہ کرے اور آپ ؓ  کی سیرت طیہ کو نہ اپنائے تو ایسے شخص کومنافق قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ اگر  اس کے دل میں حضرت علیؓ کی محبت ہوتی تو وہ آپؐ کی تعلیمات پر عمل کرتا۔ جس کے دل میں حضرت علیؓ کے بارے میں بغض ہو اس شخص کے بارے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں وہ پکا منافق ہے۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ          آپؐ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا :-

”منافق علی سے محبت نہیں کرتا اور مومن ان سے بغض نہیں رکھتا“۔[11]

یعنی منافق حضرت علیؓ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اس کے دل میں آپ کے خلاف بعض ، حسد اور کینہ بھرا ہوتا ہے۔ اس لیے منافق کوپہچاننے کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ ہر وقت علی کے نعرے لگاتار پھرتا لیکن عمل اسکا کوئی بھی آپ کی تعلیمات کے مطابق نہ ہوگا۔

(8)                   مسجد میں دل نہ لگنا 

منافقین کی ایک اور نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ :

    مومن مسجد میں ایسے ہے جسے مچھلی پانی میں اور منافق مسجد میں ایسے ہے جیسے پرنده پنجرے میں۔[12]

لوگوں میں یہ حدیث کے نام سے جانی جاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت مالک بن دینار کا قول ہے۔ بہرحال اس میں منافق کے بارے میں صحیح بتایا گیا ہے کہ مومن جب مسجد میں آتا ہے تو اس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہے جبکہ منافق جب آتا ہے تو اس کا دل مسجد میں تنگی اور گھٹن محسوس کرتا ہے۔منافق کی حالت ایسے ہو جاتی ہے جیسے پرندہ پنجرے میں قید ہو جاتا ہے ۔ وہ بے قرار ہوتا ہے کہ جلدی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر چلا جائے اور اس کی جان چھوٹ جائے۔ اس لیے منافق کی نشانیوں میں سے یہ پکی نشانی ہے کہ اسکا دل مسجد میں نہیں لگے گا اور وہ پنجرے میں قید پرندے کی طرح ہو جاتا ہے بے چین ، بے سکون۔

  

Must Read👇👇👇

منافق کے متعلق حضرت علی کے اقوال


[1] احمدبن حنبل،مسنداحمد،داراحیاءالتراث العربی،بیروت، لبنان، الطبعہ الثانیہ 1993ء، ج 3 ، ص 355

[2] بخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحيح ، نور محمد اصح المطابع و کار خانہ تجارت کتب ، آرام باغ کراچی، الطبعہ الثانیہ، 1381ھ، ج 1، ص 10

[3] دو ریوڑوں میں جو بکری جنسی  خواہش کے لیے حیران ہو۔

[4] مسلم ، مسلم بن حجاج ، الجامع الصحيح ، نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ کراچی ، الطبعۃ الثانیہ ، 1375 ھ ، ج 2، ص 375

[5] سلفی، محمد اسماعیل ، مشکوۃ المصابیح مترجم و محشی ، ج 1 ، ص 148

[6] ولی الدین ، محمد بن عبد الله ، مشکوۃ المصابیح، ج 1 ، ص ۳۴

[7] مسلم ، مسلم بن حجاج ، الجامع الصحيح ، ج 1 ، ص 59

[8] بدیع الزمان ، جامع ترمذی مترجم اردو ، ج 2، ص 737

[9] دارمی، عبد الله بن عبد الرحمن ، سنن دارمی، المطبعته العربية ، ۳۰ لیک روڈ بالمقابل منسٹی چیمبر، پرانی انار کلی لاہور ، ت ن ،ج 1 ، ص 63 

[10] بدیع الزمان، جامع ترمذی مترجم اردو ضیاء احسان پیشرز لاہور ، الطبعتہ الاولی 1988ء ، ج 2، ص 686۔

[11] بدیع الزمان، جامع ترمذی مترجم اردو ضیاء احسان پیشرز لاہور ، الطبعتہ الاولی 1988ء ، ج 2، ص 681۔

[12] عجلونی، اسماعیل بن محمد، کشف الخفاء ، ومزيل الالباس ، مکتبۃ الغزالی دمشق ، 1162م ، الجز الثانی ، ص 294 -


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.