غیر مسلم کو سلام کرنا اور دعا دینا

0

غیر  مسلم کو سلام  کرنا اور دعا دینا

 غیر  مسلم کو سلام  کرنا اور دعا دینا

غیر  مسلم کو سلام  کرنا

غیر مسلم کو سلام و دعا کے حوالے سے امت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پیغمبر  علیہ السلام کے دور میں یہودیوں نے اس لفظ "سلام" کا 

 غلط استعمال کرتے ہوۓ لفظ "سام" کہنا شروع کر دیا  تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے جواب میں وعلیکم کاطریقہ اختیار

 کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے پہلے السلام علیکم بلا امتیاز مسلم و غیر مسلم میں مروج تھا۔ آج کے دور میں بھی جہاں کسی ایسے

 خطرے کا امکان نہ ہو تو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں  موجودہ دور میں جو غیر مسلم مسلم معاشرے میں رہتے ہیں اس چیز  کو برا محسوس کرتے

 ہیں اگر ان کو سلام یا سلام کا جواب نہ دیا جائے۔سلام کے حوالے سے زیادہ تر علماء کی راۓ ہے کہ اس کاتعلق صرف مسلمانوں سے ہے اس

 لیے غیر مسلموں کو سلام نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اکابر میں سے بعض کے نزدیک سلام  ایک قسم کی دعا ہے یہ دعا غیر مسلم کو بھی دعا دی جا سکتی

 ہے۔ ان لوگوں کے عمل کو بنیاد بنا کر موجودہ دور میں اگر اسلام و دعا  غیر مسلموں سے بھی مسلمانوں کی طرح ہی کرلی جاۓ تو اس کے اثرات

 تبلیغ اسلام پر اچھے پڑھ سکتے ہیں۔  حضرت ابو موسی اشعریؓ نے ایک ذمی کو خط میں سلام لکھا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کیا آپ غیر مسلم کو سلام

 لکھ رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا  اس نے اپنے خط میں مجھے سلام لکھا تھا میں نے اس کا جواب دے دیا ہے۔ [1]

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ  غیر مسلم کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ موجودہ دور میں اس کی ضرورت زیادہ ہے تاکہ معاشرے

 میں لوگوں میں خوشگوار تعقات قائم ہو سکے۔

غیر مسلم کو دعا دینا

غیر  مسلم کو دعا  دینا  رسول اللہﷺ کے اسواہ سے ثابت ہے۔ حدیث نبوی ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز  طلب کی اس نے وہ پیش کی تو نبی کریمﷺ

 نے اسے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے۔ چناچہ  مرتے دم تک اس کے بال سیاہ رہے۔[2]

اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے عصر حاضر میں  غیر مسلموں سے ویسے ہی تعلقات رکھے جا سکتے ہیں جیسے قرون اولیٰ کے غیر  مسلموں سے

  معاملات کیے جاتے تھے۔ مو جودہ دور میں دنیا ایک گلوبل ویلیج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے مسلم اور غیر مسلم اکٹھے رہنے اور کاروبار کرنے پر

 مجبور ہیں اس لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئےاور اسلام کی حدود کے اندر رہتے ہوئےغیر مسلموں سے معاملات کیے جا سکتے ہیں۔

  اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے تاکہ ہمارے اچھے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف راغب ہو۔

 

عصر حاضرمیں غیر مسلموں سے معاشرتی تعلقات

غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک

غیر مسلم کی خوشی و غم میں شرکت

غیر مسلموں سے کاروباری تعلقات



[1]             البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح البخاری، ادب المفرد، رقم الحدیث: ١٣٧٨

[2]   عبد الرزاق، المصنف، ج: 1، ص: 392

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.