بیوی کا نفقہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

2

بیوی کا نفقہ

بیوی کا نفقہ

نفقہ

نفقہ کے لغوی معنی ’خرچ‘ کے ہیں۔ اِس سے مراد وہ شے ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے یعنی اخراجاتِ اولاد یا بیوی کا خرچ وغیرہ۔

لسان العرب میں ہے:

ما أنفقت، واستنفقت علی العیال وعلٰی نفسک.

نفقہ سے مراد وہ خرچ ہے جو انسان اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر کرے۔

)ابن منظور، لسان العرب، 10: 358(

بیوی کا نفقہ

بیوی کے نفقہ سے مراد عورت کے روزمرہ کے اخراجات ہیں جن میں خوراک، لباس اور سکونت شامل ہیں جو مرد کی استطاعتِ معاش کے مطابق اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔

کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں احناف کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک رہائش کا تعلق ہے تو شوہر پر واجب ہے کہ وہ ایسے مکان میں بیوی کو رکھے جو دونوں

 کے حسب حال ہو اور شوہر کے رشتہ دار اور اس کے بچے وہاں نہ رہتے ہوں، بجز اس کے کہ چھوٹا طفل ہو جو مباشرت کو نہ سمجھتا ہو۔ ایسے طفل کے رہنے سے کوئی

 تکلیف نہیں ہوتی‘‘ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ج4، ص556)۔

بیوی کا نفقہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام نے عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی؛ بلکہ مرد پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ عورت پر خرچ کرے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ

مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں (النسا:34)۔

اور بیوی کے نفقہ کا واجب ہونا قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح ہے:

وَاِنۡ كُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوا عَلَيۡهِنَّ حَتّٰى يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌‌……. ۚ

 ’’ اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے ‘‘      (الطّلاق:6

وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ

’’اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ یہ حکم اس شخص کیلیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے؛ اور بچہ کے باپ کو معروف طریقہ سے ان کو کھانا اور

 کپڑا دینا ہوگا‘‘   (البقرہ:233)۔

ایک جگہ فرمایا:

      مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ                         (المائدہ:89)۔

 ’’اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو‘‘۔

قرآن کریم میں عورتوں کے ساتھ معروف (بھلا) سلوک کرنے اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کو کھلانے اور پہنانے کی ہدایت دی گئی ہے اور حجۃ الوداع کے موقع پر نبی

 صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاکیدی حکم دیا کہ

 ’’عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو‘‘         (البخاری، کتاب احادیث الانبیاء)۔

اور حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اس میں عورتوں کے تعلق سے یہ ہدایت بھی شامل ہے:  

’’تم پر ان کو معروف کے مطابق کھانا کھلانے اور کپڑا پہنانے کی ذمہ داری ہے‘‘   (مسلم، کتاب الحج)۔

ایک اور حدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے:

 ’’جب ایک مسلمان اپنے اہل پر خرچ کرتا ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہوتا ہے تو اس کیلیے وہ صدقہ ہوجاتا ہے‘‘          (البخاری، کتاب النّفقات)۔

’’تم اللہ کی رضا جوئی کیلیے جو خرچ بھی کروگے اس پر تمہیں اجر ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالو گے اس پر بھی تمہیں اجر ملے گا‘‘ (البخاری، کتاب الایمان)۔

 معاویہ بن حیدہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم پر کسی ایک بیوی کا حق کیا ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب خود لباس  پہنوتو اسے بھی پہناؤ اور اس کے چہرے کو بدصورت نہ کہو اور چہرے پر  نہ مارو۔"   ابو داود(1875)    ابن ماجہ(1850)  

صحیح مسلم کی روایت میں یہ ا لفاظ ہیں:۔

"آدمی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جس کی خوراک کا ذمہ دار ہے اس سے(ہاتھ) روک لے۔"(مسلم :996)

عورتوں کا نفقہ واجب ہونے کے اسباب

نکاح کے بعد عورت اپنے خاوند کی ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے عورتوں کا نفقہ واجب ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:

  زوجیت

پہلا سبب زوجیت ہے۔ زوجیت کے معاملہ میں نفقہ کی ذمہ داری کو عورت کو ساتھ رکھنے یا خاوند کے ساتھ رہنے سے مشروط کیا گیا ہے اور اس صورت میں شوہر بیوی کے

 نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا، لیکن اگر عورت اپنے خاوند کے ساتھ نہ رہے تو زوجیت بے معنی ہو جاتی ہے.

قرابت داری

دوسرا سبب قرابت داری اور رشتہ داری کے معاملات ہیں جن میں والدین پر بچوں کی ذمہ داری بطور اولاد اور تحفظ نسب کے لیے واجب ہے، جب کہ جوان اولاد پر ان

 کے والدین کی بطور فرض خدمت واجب ہے اور صاحبِ استطاعت لوگوں پر دیگر مفلس اور نادار افراد اور رشتہ داروں کی مدد بطور اِحسان اور صدقہ معاشرتی تعلقات کے لیے واجب ہوتی ہے۔

 ملکیت

تیسرا سبب ملکیت ہے۔ اور یہ سبب آج کے جدید دور میں ناپید ہے۔

مندرجہ بالا تین اسباب سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری زوجیت میں اس کے شوہر پر، کم سنی سے جوانی تک اس کے والدین پر، بے سہارا عورتوں

 کی ذمہ داری ان کے والدین، رشتہ داروں، برادری اور حکومت پر ہے۔

نفقہ کے احکام و مسائل

شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونے کی شرائط

شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:

 نکاح صحیح ہو کیونکہ شوہر پر بیوی کے نفقہ کے واجب ہونے کی ایک شرط نکاح ’صحیح‘ ہے۔ نکاح فاسد ہونے کی صورت میں بیوی نفقہ کی مستحق نہ ہوگی۔

 بیوی خود سپردگی پر آمادہ ہو یعنی خود کو خاوند کے اختیار میں دے دے۔ لیکن اگر شوہر اپنی بیوی کو خود اپنے ساتھ نہ رکھے اور بیوی کی طرف سے ساتھ رہنے میں کوئی

 رکاوٹ بھی نہ ہو اور وہ والدین کے ہاں رہے، تو اس صورت میں بھی شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔

  اگر مہرِ معجل ادا نہ کیا گیا ہو یا مہرِ مؤجل ہو یعنی جس کی ادائیگی کی معیاد مقرر ہو اور وہ معیاد پوری ہونے کے باوجود مہر ادا نہ کیا گیا ہو اور اس کے سبب عورت شوہر کے

 ساتھ رہنے سے انکار کرے تو اس کا یہ انکار جائز ہوگا۔ اس سے اس کے حقِ نفقہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا کیونکہ اس کا ذمہ دار مرد خود ہے۔ خواہ اس نے عورت سے صحبت

 کی ہو یا نہ کی ہو، شوہر کو بیوی کا نفقہ دینا ہوگا۔

4۔     اگر عورت کو شوہر نے طلاق دی ہے تو عدت تک اسے نفقہ دینا ہوگا خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن (یعنی غیر رجعی)۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ’’ان کو (عدت کے دوران) اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ حیثیت ہو۔ ان کو تنگ کرنے کیلیے نہ ستاؤ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر

 خرچ کرو یہاں تک کہ ان کا وضع حمل ہوجائے‘‘ (الطّلاق:6)۔

یعنی مطلقہ عورتوں کو عدت تک اپنے ہی گھر میں رہنے دو اور اپنی حیثیت کے مطابق انھیں اچھی جگہ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ اچھی جگہ ہونے کے باوجود انھیں گھٹیا جگہ پر چھوڑ

 دو۔ عدت کے دوران انھیں تکلیف دیکر تنگ کرنا تاکہ وہ شوہر کا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں ہر گز روا نہیں۔ مطلقہ اگر حاملہ ہے تو اس کا وضع حمل ہونے تک اس کے

 نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہے، کیونکہ عدت ختم ہونے سے پہلے عورت دوسرا نکاح کرنے کیلیے آزاد نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس کی رہائش اور اس کے خرچ کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جس عورت کو طلاق بائن ہو چکی ہو اسے خاوند کی طرف سے نفقہ اور رہائش وغیرہ میں سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو جب ان

 کے خاوند نے طلاق بائن دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:            

"لاَ نَفَقَةَ لَكِ وَلاَ سُكْنَى"  

"تجھے نہ نفقہ ملے گا اور نہ رہائش۔"

                     (صحیح البخاری الطلاق باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس رضی اللّٰه عنہا حدیث 5323۔5324)

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’جسے طلاق بائنہ ہو چکی ہو، اسے صحیح حدیث کے مطابق نان و نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی بلکہ یہ مسئلہ کتاب اللہ اور قیاس کے عین مطابق ہے، نیز فقہائے محدثین کا بھی یہی مسلک ہے۔‘‘  (اعلام الموقعین 3/321۔  )

اگر مطلقہ بائنہ حاملہ ہوتو اسے نفقہ ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

"وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ" 

"اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک وضع حمل نہ ہو،انھیں خرچ دیتے رہا کرو۔

6 ۔       عدتِ وفات میں اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک اس کا نفقہ شوہر کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے گاکیونکہ سورۂ طلاق کی آیت 6 میں حاملہ عورتوں پر خرچ کرنے کا مطلقاً حکم دیا گیا ہے۔

’فقہ السنہ‘ میں ہے : ’’یہ آیت حاملہ کے نفقہ کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ خواہ وہ رجعی طلاق کی عدت میں ہو یا بائن طلاق کی عدت میں یا عدت وفات میں ہو‘‘ (فقہ السنہ سید سابق: ج 2، ص 182)۔

 7 ۔ اور اگر عورت حاملہ نہیں ہے تو اسے چار ماہ دس دن شوہر کے گھر پر عدت گزارنی ہوگی، اس صورت میں فقہاء نفقہ کے قائل نہیں ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ اس کا

 نفقہ شوہر کے ترکہ سے ادا نہ کیا جائے کیونکہ وفات پانے والے شوہروں کو ایک سال تک بیوی کے نفقہ اور گھر سے ان کو نہ نکالنے کی وصیت کرنے کی ہدایت سورۂ بقرہ آیت 240 میں دی گئی ہے۔

8۔  اگر خاوند اور بیوی نفقے کی ایک مقدار یا قیمت پر متفق ہو جائیں یا اس کی ادائیگی میں نقد یا زیادہ یا تھوڑے عرصے تک ادھار پر رضا مند ہو جائیں تو جائز ہے کیونکہ یہ

 خالص ان کا حق ہے۔ اگر ان میں اختلاف پیدا ہو جائے تو روزانہ صبح کے وقت اس دن کا مطلوبہ خرچ دے دیا جائے ۔اور اگر اناج لینے پر متفق ہو جائیں تو یہ بھی جائز

 ہے۔کیونکہ اس میں تکلف بھی ہوتا ہے اور خرچ بھی آتا ہے، اس لیے اگر عورت اس پر راضی ہو تو قبول کر سکتی ہے۔ 

9۔   خاوند پر لازم ہے کہ ہر سال شروع ہی میں پورے سال کے لیے لباس مہیا کردے۔ اگر کوئی شخص غائب ہو گیا اور اس نے بیوی کے لیے نفقہ وغیرہ کچھ بھی نہیں

 چھوڑا تھا یا وہ خود موجود تھا لیکن اس نے بیوی کو نفقہ نہیں دیا تو ایسی حالت میں گزرے ہوئے تمام ایام کا خرچہ دینا اس پر واجب ہے کیونکہ یہ خاوند کی ذمہ داری ہے، وہ

 امیر ہو یا غریب، لہٰذا ایام بیت جانے کی وجہ سے حق نفقہ ختم نہیں ہو گا۔ 

10۔ اگر کوئی مالدار عورت غریب شخص کے نکاح میں ہے یا کوئی غریب عورت مالدار شخص کی بیوی ہے تو اسے متوسط درجے کی ضروریات زندگی دی جائیں۔ 

                                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1.    النفقات اور اسلامی ممالک میں رائج الوقت قوانین                   حماد اللہ

2.    کتاب الکفالہ و النفقات (اسلام کا نظام کفالت ایک تحقیقی جائزہ)   ڈاکٹر مفتی عمران الحق

3.   تفہیم القرآن                                                     مولانا سید ابو الاعلی مودودی

 

Post a Comment

2Comments
Post a Comment
.