قرآن مجید کے پارہ نمبر 06-10 تک بیان ہونے والے واقعات و احکامات

0


 قرآن مجید کے پارہ نمبر 06-10 تک بیان ہونے والے واقعات و احکامات

 

🗣 چھٹا پارہ

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ نساء کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ مائدہ کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ نساء کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:

۱۔ یہود کی مذمت

۲۔ نصاری کی مذمت

۳۔ میراث

۱۔ یہود کی مذمت:

انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔

۲۔ نصاری کی مذمت:

یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کا شکار کر عقیدۂ تثلیث کے حامل ہوگئے۔

۳۔ میراث:

عینی اور علاتی بہنوں کے حصے مذکور ہوئے کہ ایک بیٹی کو نصف ، ایک سے زیادہ کو دو ثلث اور اگر بھائی بھی ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا ملے گا۔

(دوسرا حصہ) سورۂ مائدہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:

۱۔ اوفوا بالعقود (ہر جائز عہد اور عقد جو تمھارے اور رب کے درمیان ہو یا تمھارے اور انسانوں کے درمیان ہو اسے پورا کرو)

۲۔ حرام چیزیں (بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)

۳۔ طہارت (وضو ، تیمم اور غسل کے مسائل)

۴۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ (قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تھا، قتل اور چوری کے احکامات)

۵۔ یہود و نصاری کی مذمت (یہ لوگ خود کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں، حالانکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی آتا ہے، نبی علیہ السلام کو انکی طرف سے جو سرکشیاں ہوئی

 ہیں ان پر تسلی دی گئی، مسلمانوں کو ان سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا اور حضرت داؤد اور عیسٰی علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنتِ خداوندی مذکور ہوئی، پھر آخر

 میں بتایا کہ یہ تمھارے خطرناک دشمن ہیں)

🗣 ساتواں پارہ

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ مائدہ کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ انعام ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ مائدہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں: 

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف

۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل

۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف:

جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اسے سن کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔

۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل:

۔۔۔ہر چیز خود سے حلال یا حرام نہ بناؤ۔

۔۔۔لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں، البتہ یمین غموس پر کفارہ ہے، یعنی دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا انھیں پہننے کے لیے کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور ان

 تینوں کے نہ کرسکنے کی صورت میں تین دن روزے رکھنا۔

۔۔۔شراب، جوا، بت اور پانسہ حرام ہیں۔

۔۔۔حالتِ احرام میں محرم تری کا شکار کرسکتا ہے، خشکی کا نہیں۔

۔۔۔حرم میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔

۔۔۔چار قسم کے جانور مشرکین نے حرام کر رکھے تھے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔

۲۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

قیامت کے دن حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے پوچھا جائے گا کہ جب تم نے ہمارا پیغام پہنچایا تو تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ اسی سوال و جواب کے تناظر میں

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ اپنے احسانات گنوائیں گے، ان احسانات میں مائدہ والا قصہ بھی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اللہ

 تعالیٰ سے کہو ہم پر ایسا دسترخوان اتارے جس میں کھانے پینے کی آسمانی نعمتیں ہوں، چناچہ دسترخوان اتارا گیا، ان احسانات کو گنواکر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے اے

 عیسیٰ! کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ تجھے اور تیری ماں کو معبود مانیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے تو پاک ہے، میں نے تو ان سے تیری عبادت کا کہا تھا الی

 آخرہ۔

(دوسرا حصہ) سورۂ انعام کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں ہیں:

۱۔ توحید

۲۔ رسالت

۳۔ قیامت

۱۔ توحید:

اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور عظمت وکبریائی خوب بیان ہوئی ہے۔

۲۔ رسالت:

نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے:

(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام ، (۲)حضرت اسحاق علیہ السلام ، (۳)حضرت یعقوب علیہ السلام ، (۴)حضرت نوح علیہ السلام ، (۵)حضرت داؤد علیہ السلام ،

 (۶)حضرت سلیمان علیہ السلام ، (۷)حضرت ایوب علیہ السلام ، (۸)حضرت یوسف علیہ السلام ، (۹)حضرت موسٰی علیہ السلام ، (۱۰)حضرت ہارون علیہ السلام ،

 (۱۱)حضرت زکریا علیہ السلام ، (۱۲)حضرت یحیٰ علیہ السلام ، (۱۳)حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، (۱۴)حضرت الیاس علیہ السلام ، (۱۵)حضرت اسماعیل علیہ السلام ،

 (۱۶)حضرت یسع علیہ السلام ، (۱۷)حضرت یونس علیہ السلام ، (۱۸)حضرت لوط۔

۳۔ قیامت:

۔۔۔ قیامت کے روز اللہ تمام انسانوں کا جمع کرے گا۔ (آیت:۱۲)

۔۔۔ روزِ قیامت کسی انسان سے عذاب کا ٹلنا اس پر اللہ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ (آیت:۱۶)

۔۔۔ روزِ قیامت مشرکین سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کہاں ہیں تمھارے شرکاء؟ (آیت:۲۲)

۔۔۔ اس روز جہنمی تمنا کریں گے کہ کاش! انھیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ اللہ رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والے بن جائیں۔(آیت:۲۷)

🗣 آٹھواں پارہ 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انعام کا بقیہ حصہ

۲۔سورۂ اعراف کا ابتدائی حصہ

(پہلا حصہ) سورۂ انعام کے بقیہ حصے میں چار باتیں ہیں:

۱۔ تسلی رسول

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں

۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں

۴۔ دس وصیتیں

۱۔ تسلی رسول:

اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ یہ لوگ ضدی ہیں، معجزات کا بے جا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، اگر مردے بھی ان سے باتیں کریں تو یہ

 پھر بھی ایمان نہ لائیں گے، قرآن کا معجزہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں:

۱۔ یہ لوگ چوپایوں میں اللہ تعالیٰ کا حصہ اور شرکاء کا حصہ الگ الگ کردیتے، شرکاء کے حصے کو اللہ تعالیٰ کے حصے میں خلط نہ ہونے دیتے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ شرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہ سمجھتے۔ (آیت:۱۳۵)

۲۔ فقر یا عار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کردیتے۔ (آیت:۱۳۶)

۳۔ چوپایوں کی تین قسمیں کر رکھی تھیں: ایک جو ان کے پیشواؤں کے لیے مخصوص، دوسرے وہ جن پر سوار ہونا ممنوع، تیسرے وہ جنھیں غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے تھے۔ (آیت:۱۳۸)

۴۔ چوپائے کے بچے کو عورتوں پر حرام سمجھتے اور اگر وہ بچہ مردہ ہوتا تو عورت اور مرد دونوں کے لیے حلال سمجھتے۔ (آیت:۱۳۹)

۳۔ اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں:

(۱)کھیتیاں (۲)چوپائے

۴۔ دس وصیتیں:

(۱)اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)

(۲)ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)

(۳)اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)

(۴)برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)

(۵)ناحق قتل نہ کیا جائے۔ (آیت:۱۵۱)

(۶)یتیموں کا مال نہ کھایا جائے۔ (آیت:۱۵۲)

(۷)ناپ تول پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)

(۸)بات کرتے وقت انصاف کو مد نظر رکھا جائے۔ (آیت:۱۵۲)

(۹)اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کیا جائے۔ (آیت:۱۵۲)

(۱۰)صراط مستقیم ہی کی اتباع کی جائے۔ (آیت:۱۵۳)

(دوسرا حصہ) سورۂ اعراف کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں

۲۔ چار ندائیں

۳۔ جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل

۵۔ پاتچ قوموں کے قصے

۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں:

(۱)قرآن کریم (۲)تمکین فی الارض (۳)انسانوں کی تخلیق (۴)انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔

۲۔ چار ندائیں:

صرف اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار مرتبہ يَا بَنِي آدَمَ کہہ کر پکارا ہے۔ پہلی تین نداؤں میں لباس کا ذکر ہے، اس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین

 پر رد کردیا کہ تمھیں ننگے ہوکر طواف کرنے کو االلہ تعالیٰ نے نہیں کہا جیسا کہ ان کا دعوی تھا۔ چوتھی ندا میں اللہ تعالیٰ نے اتباع رسول کی ترغیب دی ہے۔

۳۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ:

جنتی کہیں گے: ”کیا تمھیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین آگیا؟“، جہنمی اقرار کریں گے، جہنمی کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے: ”اللہ تعالیٰ نے

 کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:

(۱)بلند وبالا آسمان (۲)وسیع وعریض عرش (۳)رات اور دن کا نظام (۴)چمکتے شمس و قمر اور ستارے (۵)ہوائیں اور بادل (۶)زمین سے نکلنے والی نباتات

۵۔ پانچ قوموں کے قصے:

(۱)قوم نوح (۲)قوم عاد (۳)قوم ثمود (۴)قوم لوط اور (۵)قوم شعیب

ان قصوں کی حکمتیں: (۱)تسلی رسول (۲)اچھوں اور بروں کے انجام بتانا (۳)اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں (۴)رسالت کی دلیل کہ امی ہونے کے باوجود

 پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں (۵)انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت

🗣 نواں پارہ

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ اعراف کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ انفال کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ

۲۔ عہد الست کا ذکر

۳۔ بلعم بن باعوراء کا قصہ

۴۔ تمام کفار چوپائے کی طرح ہیں

۵۔ قیامت کا علم کسی کو نہیں

۶۔ قرآن کی عظمت

بلعم بن باعوراء کا قصہ:

فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا،

 اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انھوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے

 شروع کیے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اس کو کتے کی طرح کردیا۔ فمثله

 كمثل الكلب

(۲) سورۂ انفال کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں یہ ہیں:

۱۔ غزوہ بدر اور مال غنیمت کا حکم

۲۔ مومنین کی پانچ صفات

۳۔ چھ بار مومنین سے خطاب

مومنین کی پانچ صفات یہ ہیں:

(۱)خشیت (۲)تلاوت (۳)توکل (۴)نماز (۵)سخاوت (آیت:۲و۳)

چھ بار مومنین سے خطاب:

(۱) آیت: ۱۴ (اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا)

(۲) آیت: ۲۰ (اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)

(۳) آیت: ۲۴ (اے ایمان والو! اللہ اور رسول جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو)

(۴) آیت: ۲۷ (اے ایمان والو! نہ اللہ اور رسول سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں)

(۵) آیت: ۲۹ (اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھیں ممتاز کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا)

(۶) آیت: ۴۵ (اے ایمان والو! دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو)

🗣 دسواں پارہ 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انفال کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ انفال کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں یہ ہیں:

۱۔ مال غنیمت کا حکم

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات

۵۔ ہجرت اور نصرے کے فضائل

۱۔ مال غنیمت کا حکم:

مال غنیمت کا حکم یہ بیان ہوا کہ خمس نبی علیہ السلام آپ کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات:

(۱) کفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ اس جنگ کا ہونا اللہ کے ہاں طے ہوچکا تھا۔

(۲) شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا رہا دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔

(۳) قریش غزوۂ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب:

(۱) میدان جنگ میں ثابت قدمی۔

(۲) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے۔

(۳) اختلاف اور لڑائی سے بچ کر رہنا۔

(۴) مقابلے میں نا موافق امور پر صبر۔ 

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات:

(۱) دشمنوں سے مقابلے کے لیے مادی، عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں۔

(۲) اگر کافر صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح کرلو۔

۵۔ ہجرت اور نصرت کے فضائل:

(۱) مہاجرین و انصار سچے مومنین ہیں (۲) گناہوں کی مغفرت (۳) رزق کریم کا وعدہ

(۲) سورۂ توبہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں دو باتیں یہ ہیں:

۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد

مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان ہے، مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی۔

۲۔ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز

منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر

\ پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے، یہاں

 تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس

 کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔

🗣 گیارھواں پارہ

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ یونس مکمل

(۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:

۱۔ منافقین کی مذمت

۲۔ مومنین کی نو صفات

۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ

۱۔ منافقین کی مذمت:

اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے

 لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔

۲۔ مومنین کی نو صفات:

(۱)توبہ کرنے والے (۲)عبادت کرنے والے (۳)حمد کرنے والے (۴)روزہ رکھنے والے (۵)رکوع کرنے والے (۶)سجدہ کرنے والے (۷)نیک کاموں کا حکم

 کرنے والے (۸)بری باتوں سے منع کرنے والے (۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے

۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ:

(۱)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (۲)حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (۳)حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ

ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔

(۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:

۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔آیت:۳۱)

۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں)

۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)

۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)

حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ:

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ

 رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت

 موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت

 موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی

 اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔

حضرت یونس علیہ السلام:

انھی کے نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً

 یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:

ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔

دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔

قصہ:

حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ

 کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ

 نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور

 بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.