بدھ مت اور اسلام۔ ایک تقابلی جائزہ

2


بدھ مت اور اسلام
                                    ٹیکسلا میں گوتم بدھ کا مراقبہ کی حالت میں موجود مجسمہ۔

بدھ مت اور اسلام۔ ایک تقابلی جائزہ

بدھ متوں کے نظریات ہندو مت سے مختلف نہیں کیونکہ یہ بھی قانون جزا  و سزا  اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ بار بار کی پیدائش اور جزا و سزا سے نجات پانے کی خاطر برائی اوربھلائی سے رکنے اورخواہشات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیرات مانگنا بدھوؤں کی امتیازی علامت ہے۔بدھ مت میں نروان مذہبی زندگی کا مقصودہے۔ گوتم بدھ زندگی کے مسئلہ کا جو شافی و کافی حل تلاش کر رہا تھا‘وہ اسے درخت کے نیچے مراقبہ کی حالت میں نروان کی صورت میں ملا۔ نروان ایک ایسی حالت ہے جوعام ذہنی سانچوں سے بالاترہے اور چونکہ وہ ذہن کی گرفت سے آزادہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کا بیان ناممکن ہے۔ اس کے باوجود چونکہ گوتم بدھ کو اپنا پیغام عوام تک پہنچانا اور ان کو یہ بتانا تھا کہ نروان ہی میں انسان کو دکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدی مسرت حاصل ہوسکتی ہے اوروہی انسان کا حقیقی مطلوب ہوسکتاہے۔ 

بدھ مت

                             دنیا کی مذہبی تاریخ میں چھٹی صدی قبل مسیح کازمانہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس صدی میں بہت سی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں ‘ جن کی وجہ سے بہت ساری مذہبی تحریکیں وجودمیں آئیں ۔ ہندوستان میں یہ صدی ایک قومی سطح اور ایک عالمی پیمانے کے دوبڑے مذاہب جین مت اور بدھ مت کی ابتدا کازمانہ ہے۔بدھ مت اس وقت بھی ایشیاء کے متعددممالک میں اکثریت کامذہب ہے۔تاریخ میں ایک لمباعرصہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعدادبہت زیادہ رہی ہے۔ اس وقت جاپان‘ کوریا‘ منچوریا‘منگولیا‘ چین‘ویت نام‘ تھائی لینڈ‘ برما‘ تبت‘ نیپال اور سری لنکا میں بدھ مت ایک زندہ مذہب ہے۔بدھ مت ایک آدمی سے منسوب مذہب ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوا اور اپنی ابتدائی نشوونما کے بعد ہندوستان سے نکل کر ایشیاء کے دوسرے ممالک میں پھیلا   ۔  

                                                                                                                                گوتم بدھ

           گوتم بدھ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کااصلی نام ’’گوتم سدھارتھ‘‘ رکھاگیا۔ اس کی پیدائش کے موقع پر ایک جوتشی‘ پنڈت آیا جس نے یہ پشین گوئی کی کہ یہ بڑا ہوکر ایک بہت بڑا سنیاسی یا ایک بہت بڑا بادشاہ بنے گا۔اس کے والدنے اپنے بیٹے کے متعلق یہ پشین گوئی سن کر فیصلہ کرلیا کہ اس کی تربیت شاہانہ انداز میں کی جائے۔ تاکہ یہ بڑا ہوکر بادشاہ بن سکے۔لہٰذا اس نے ایک بہت بڑامحل تعمیر کروایا۔ اس میں ہرقسم کی سہولیات مہیا کی گئیں اور اس بات کوملحوظ خاطر رکھا گیا کہ یہ باہر نہ نکل سکے تاکہ اس پر دوسرے ماحول کا اثر نہ ہو۔اس نے اپنے فیصلے کے مطابق گوتم بدھ کو اس شاہی محل میں رکھا- وہ پرورش پاتا رہا ساتھ ساتھ وہ سوچ وبچار بھی کرتا رہا آخر ایک شہزادی سے اس کی شادی کردی گئی۔ وقت گزرتا چلا گیا اور اس کے اندرصحیح راہ کی جستجو بڑھتی چلی گئی۔اس کے والد کو کیا خبرتھی کہ اس کے بیٹے کے ذریعے ایک انقلابی اور مذہبی تحریک جنم لینے والی ہے۔ آخر کار وہ دن بھی آیا جب گوتم بدھ شاہی محل میں شاہانہ لباس پہنے اپنے ہی خیالوں میں گم صحن میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں کچھ مناظر اس کی آنکھوں سے گزرے۔وہ اچانک رک گیا اور مزید اپنے خیالوں میں گم ہوگیا۔ شاید کہ وہ اس وقت اپنے آپ سے چندسوالات کر رہا تھا۔ شاید کہ وہ سوچ رہاتھا  کہ اصلی اور حقیقی زندگی کیا اور اس کامقصد کیاہے جس علم کی تلاش وہ چاہتا تھا ان مناظرنے اس کے سوالات کا جواب دے دیا۔وہ ایسے عجیب ومنفرد مناظر کیا ہوسکتے  تھے  جنہوں نے اس کی زندگی پلٹ دی۔

      روایت کے مطابق سب سے پہلے منظرمیں اس نے ایک ضعیف و کمزور آدمی کو دیکھا جسے دیکھ کر اسے بوڑھے کاماضی  یاد آیا اور اپنے آپ پرنظرڈالتے ہوئے اسے یہ خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی اس ضعیفی کی عمرمیں پہنچے گا۔ دوسرے منظر میں اس کے سامنے ایک بیمار آدمی آیاجس کے جسم پہ کمزوری کے آثار واضح تھے تو اس کے ذہن میں یہ بات سرایت کرگئی کہ وہ بھی اس کی طرح بیمار ہوسکتا ہے۔تیسرے منظرمیں اس کے سامنے ایک جنازہ گزرا تو اس کے ذہن میں دنیا کی بے ثباتی آئی کہ ہمیشہ ہر دور میں ایسے  رہنا ہوگا۔ ایک دن میراجنازہ بھی لوگوں کے کندھوں پہ ہوگا۔ چوتھے منظر میں اس کے سامنے ایک فقیر اور درویش آدمی آیا‘ اس کے چہرے پہ طمانیت تھی‘وہ بھیک مانگ رہا تھا اور دنیا کے جھنجھٹوں سے بے خبر ایک آزاد خیال زندگی بسرکر رہا تھا۔ یہی وہ آخری منظرتھا جس کی وجہ سے اسے اس کے من نے سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ وہ ایسی آزاد اور درویشانہ زندگی بسر کرناچاہتاہے۔

           ان چارمناظرنے اس کی کایا پلٹ دی۔اس لاعلمی کے دور میں ایک آدمی نے اتنی جستجو کی ‘صحیح عقیدے کی تلاش کے لیے غوروفکر کیا۔ یہ بات بجاہے کہ اس نے سارے خاندان کو ‘ بیوی بچوں کو چھوڑکر رہبانیت کی زندگی اختیار کر لی . اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ جب تک وہ صحیح راہ تلاش نہ کرلے گا‘وہ گھر واپس نہیں آئے گا۔ وہ جنگلوں کی طرف نکل گیا اور مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔وقت گزرتا چلا آخر کار ایک دن وہ ایک د رخت کے سایے تلے ٹھہرا تو اسے ایک نفسیاتی سعادت سی محسوس ہوئی ۔ اسی دوران اچانک اسے اپنے اندر سے ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آج وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے حتّٰی کہ جہان کا راز معلوم کرلے۔ اس دن سے اس کانام ’’بدھ‘‘ پڑگیا۔جس کامعنی ہے ’’بیدار وہوشیار اورروشنی والاعالم۔‘‘

          جب اس کا مقصد پورا ہوگیا تو اس کے اندر ایک اور تڑپ پیدا ہوئی کہ جس راہ کی تلاش کے لیے اس نے اتنی بڑی قربانی دی کیوں نہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ رستہ بتا دے۔ اسی طرح اس نے اپنی اس دعوت کا آغاز کیا اور اتنی محنت اور لگن سے تبلیغ کی کہ آج دنیاکے بڑے مذاہب میں سے ایک منفرد نام ’’بدھ مت‘ ‘ کاہے۔ جس کا ذریعہ یہی ایک واحد شخص بنا۔

بدھ کی تعلیمات میں سے چار اعلی سچائیاں درج ذیل ہیں۔

1۔ انسانی زندگی اپنی جبلی حیثیت میں دکھوں کا مسکن ہے۔

2۔ دکھوں کا سبب خواہشات ہے۔

3۔خواہشات کو پیدا ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

4۔ کڑی تپسیا سہل پسندی کے بجائے میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔

                                                            آٹھ راست راہ

گوتم بدھ نے آٹھ راست راہوں کو اختیار کیا جو درج ذیل ہیں۔

١۔ صحیح علم ۔ ٢ صحیح  ارادہ ۳  صحیح کلام  ۴  صحیح عمل   ۵۔  جائز و حلال کمائی   ۶۔ صحیح کوشش  ۔ ۷  نیک خیال   ۸ ۔ صحیح غور و فکر

                                                                       پاکستان میں بدھ مت     

                    پاکستان میں بدھ مت کا بڑا تاریخی مرکز گندھارا ہے جو ٹیکسلا سے وادی سوات اور پشاور تک پھیلا ہوا

1961 ء کی مردم شماری رپورٹوں کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان میں بدھ مذہب کی شرح کل آبادی کا 0.38 فیصد تھی۔ دائرۃ المعارف اسلامیہ کے مطابق گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں پاکستان میں بدھوں کی تعداد تین لاکھ ستر ہزار کے قریب تھے۔ اس دور میں بدھی پیروکار مشرقی پاکستان کی کل آبادی کا 0.74 اور مغربی پاکستان کی کل آبادی کا 0.01 فیصد تھے، چنانچہ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں بدھوں کی کل تعداد 2639 تھی جو اب یقیناً بڑھ گئی ہو گئی۔انسائکلوپیڈیا پاکستانیکا (مرتبہ: سید قاسم محمد) کے مطابق پاکستان میں بدھوں کے تقریباً اڑھائی ہزار نفوس کل ملکی آبادی کا 0.003 فیصد ہیں. 

                     بدھ مت اور اسلام۔ ایک تقابلی جائزہ

      اجمالی طور پر اگر دیکھاجائے تو بدھ متوں کے نظریات ہندو مت سے مختلف نہیں کیونکہ یہ بھی قانون جزا  و سزا  اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ بار بار کی پیدائش اور جزا و سزا سے نجات پانے کی خاطر برائی اوربھلائی سے رکنے اورخواہشات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیرات مانگنا بدھوؤں کی امتیازی علامت ہے۔ عقائدکسی بھی مذہب کی بنیادہوتے ہیں ۔ بدھ مذہب کے مطالعہ سے چندعمومی عقائد ہمارے سامنے آتے ہیں ۔

تصورخدا

         گوتم بدھ کی تعلیمات میں خدا یا براھما یا آتما کا کوئی بھی تصور موجود نہیں ۔بدھ کہا کرتا تھا کہ انسان کی نجات خود اسی پرموقوف ہے نہ کہ معبود پر اور وہ سمجھتا تھا کہ انسان ہی اپنے نفس کے انجام کو بنانے والاہے۔

مظہرالدین صدیقی لکھتے ہیں :

’’بدھ کی تعلیم یہ تھی کہ روحانی نجات نہ توخدا کی توفیق سے ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بخشش وکرم کانتیجہ ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی ذاتی جدوجہد آزادی قوت اوراخلاقی کشمکش کاثمرہے۔‘‘

بدھ نے خدا کامکمل طورپر انکاربھی نہیں کیا۔بعض مقامات پہ اس نے خاموشی اختیار کی ہے۔بدھ مذہب کی تعلیمات کایہاں سے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس مذہب میں خدا کا کوئی واضح تصور ہی موجود نہیں اس کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے ؟اللہ رب العزت کی ذات جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا‘بے شمار نعمتوں سے نوازا اتنی بڑی کائنات کا نظام چلایا اب اگر انسان اس ذات کاہی انکار کر دے یا اس کے اندر پائی جانے والی صفات کسی دوسرے کے اندر بھی تصورکرلے  تواس انسان کی نجات کیسے ممکن ہے؟

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ‌ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞هُوَ الۡاَوَّلُ وَالۡاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالۡبَاطِنُ‌ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞  (سورۃ الحدید۔1تا3)

’’اللہ کاپاک ہونا بیان کیا ہر اس چیزنے جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وہی سب پرغالب ‘کمال حکمت والا ہے۔اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور وہ ہرچیز پر پوری طرح قادر ہے۔ وہی سب سے پہلے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہرہے اور چھپا ہواہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘

اللہ رب العزت نے اپنی صفات کو بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا:

هُوَ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ۚ اَلۡمَلِكُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُهَيۡمِنُ الۡعَزِيۡزُ الۡجَـبَّارُ الۡمُتَكَبِّرُ‌ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۞ هُوَ اللّٰهُ الۡخَـالِـقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ‌ لَـهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞

’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ہرچھپی اور کھلی چیزکوجاننے والاہے۔ وہی بے حدرحم والا‘نہایت مہربان ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ‘بادشاہ ہے‘نہایت پاک ‘سلامتی والا‘امن دینے والا‘نگہبان ‘سب پرغالب‘اپنی مرضی چلانے والا‘بے حدبڑائی والاہے۔پاک ہے اللہ اس سے جووہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘(سورۃ الحشر۔23,22)

عقیدہ نروان

بدھ مت میں نروان مذہبی زندگی کا مقصودہے۔ گوتم بدھ زندگی کے مسئلہ کا جو شافی و کافی حل تلاش کر رہا تھا‘وہ اسے درخت کے نیچے مراقبہ کی حالت میں نروان کی صورت میں ملا۔ نروان ایک ایسی حالت ہے جوعام ذہنی سانچوں سے بالاترہے اور چونکہ وہ ذہن کی گرفت سے آزادہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کا بیان ناممکن ہے۔ اس کے باوجود چونکہ گوتم بدھ کو اپنا پیغام عوام تک پہنچانا اور ان کو یہ بتانا تھا کہ نروان ہی میں انسان کو دکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدی مسرت حاصل ہوسکتی ہے اوروہی انسان کا حقیقی مطلوب ہوسکتاہے۔ اس لیے نروان کی کچھ تشریح کی گئی۔ بدھ مت میں نروان کی تشریح کے لیے جواستعارات استعمال ہوئے ہیں ‘وہ زیادہ ترمنفی نوعیت کے ہیں ۔یعنی بجائے یہ بتانے کے کہ نروان کیاہے‘یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نروان کیانہیں ہے۔

نروان کی حقیقت گوتم بدھ اپنے الفاظ میں بیان کرتاہے:

’’بھکشوؤ(پیروکارو)!ایسی کیفیت موجودہے جہاں نہ تو خاک ہے نہ پانی‘ نہ آگ ہے نہ ہوا‘نہ لامکانیت ہے‘نہ شعور کی لا محدودیت‘ نہ تو عدم شعورہے اور نہ شعور‘ نہ تویہ دنیاہے اور نہ دوسری دنیا‘ نہ سورج ہے وہاں اورنہ چاند اورہاں بھکشوؤ! میں کہتا ہوں وہاں نہ آنا اورنہ جانا‘ نہ ٹھہرنا ‘نہ گزرجانا اورنہ وہاں پیدا ہونا ہے ۔بغیرکسی سہارے‘ کسی حرکت یاکسی بنیاد کے ہے۔ بے شک یہی دکھوں کاخاتمہ (نروان)ہے۔‘‘

گوتم بدھ کے اس بیان سے یہی سمجھ میں آتاہے کہ ایسی کیفیت کانام ہے جہاں انسان دنیاسے الگ تھلگ ہوجاتاہے۔ اس کے ذہن میں کوئی دوسرانقطہ نہیں ہوتا۔  ان کا یہ نظریہ جیسے بھی ہو اورجیسی کیفیت بھی ہو‘یہ اسلام کے فطری مزاج کے خلاف ہے۔ اس طریقہ سے خدا کی معرفت حاصل کرنا اور دنیا کے غموں سے نجات حاصل کرنا ۔ کوئی شریعت کامعاملہ نہیں ہے۔ دین اسلام نے ایسی تمام جاہلانہ حرکات وکیفیات کاسختی سے رد فرمایاہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا        ’’لارھبانیۃ فی الاسلام‘‘    ’’اسلا م میں ترک دنیاکاکوئی مقام نہیں۔‘‘

دین اسلام نے دین کے ساتھ ساتھ دنیابہتربنانے اوراس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔فرمایا 

رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً۔(سورۃالبقرہ۔201)

                            ’’ا ے اللہ ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطافرما۔‘‘

مزیدفرمایا:             وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا۔           (سورۃ القصص۔77)

                                                                     ’’ اور دنیاسے اپناحصہ لینامت بھولو۔‘‘                                

اسلام نے حقوق انسانی پہ بہت زور دیاہے۔ اسلام اس بات کا ہرگز حکم نہیں دیتا کہ اپنی ذات اورنفس کو تکلیف پہنچائی جائے۔گوتم بدھ کے نزدیک جتنی دیر تک آدمی بھکشو یعنی بھکاری نہ بن جائے وہ نروان حاصل نہیں کرسکتا۔ مانگ کر کھانا قابل فخر اور عبادت سمجھتے ہیں ۔ جبکہ دین اسلام اس چیز کی سخت مذمت کرتاہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’’تم میں سے جو آدمی مانگتا رہے گا‘یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا‘اس کے منہ پرایک بوٹی بھی گوشت نہیں ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم)

تناسخ  کاعقیدہ:

یہ نظریہ بھی اسلام کے نظریہ حیات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کاعقیدہ آخرت بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیل بھی موجودہے۔بدھ مت کے نزدیک زندگی ایک لعنت ہے جس سے انسان کو بچ کرنکل جانا چاہیے جبکہ اسلام نے زندگی کولعنت کی بجائے انسان کی آزمائش قرار دیاہے۔یعنی دنیا کی زندگی دارالعمل ہے۔ یعنی دنیاوی زندگی کے اختتام پر ایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔جس میں اس دنیاوی زندگی کا حساب وکتاب ہوتاہے۔

الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَا ۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا          ۔(سورۃ الملک۔2)

’’زندگی اورموت کی پیدائش اس لیے ہے کہ وہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتاہے۔‘‘

  تصورنجات:

گوتم بدھ نے نجات کا دار و مدار انسان کی ذاتی کوشش پر رکھا اور اسے اپنے اعمال کاقطعی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔      بدھ کاقول ہے:

’’انسان برائی کا ارتکاب خود کرتا ہے اور اس کے خراب نتیجہ کو بھگتنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔وہ خود ہی برائی سے کنارہ کش ہوسکتاہے اور پاکیزگی اورنجاست دونوں ذاتی صفات ہیں ۔ کوئی بھی دوسرے کوپاکیزہ نہیں بناسکتا۔‘‘

جبکہ اسلام کا تصور توبہ آسان ہے۔ انسان سے اگر غلطی سرزد ہو جائے وہ اللہ کے سامنے عاجزی سے معافی طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کومعاف فرمادیتے ہیں ۔

                      وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔

’’ اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ‘ہم انہیں ضرور راہ دکھائیں گے۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔69)

بدھ مت کے یہ چند بنیادی تصورات تھے ۔ان کے علاوہ بھی ہیں  ۔ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ یہ باطل نظریات کے حامل مذاہب آج کس مستقل مزاجی سے اپنے اپنے عقائد کی ترویج واشاعت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔ان کے کچھ باطل نظریات ہمارے اسلامی معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جبکہ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور آسانیوں کاکوئی مذہب مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہمیں اللہ کا شکربھی ادا کرنا ہوگا  کہ اس نے ہمیں دین اسلام کا پیرو کار بنایا اور ساتھ اس سچے اور پیارے مذہب کے لیے اپنے اندر ہرطرح کی قربانی کاجذبہ پروان چڑھاناہوگا۔اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔آمین

نتائج

    بدھ مت   اور اسلام کے فلسفوں میں مماثلت سے زیادہ فرق ہے۔ اگرچہ اسلام ایک توحید پسند مذہب ہے جو ایک زبردست خدا کی عبادت پر یقین رکھتا ہے ، لیکن بدھ مت ایک تخلیق کار خدا کے تصور کو مسترد کرتا ہے لیکن روشن خیال انسانوں کو دیوتاؤں کی طرح عزت دیتا ہے۔بدھ مت سبزی خوروں کی تعلیم دیتا ہے اور شراب اور منشیات سے باز آتا ہے۔ اسلام شراب پر بھی پابندی عائد کرتا ہے لیکن سبزی خوروں کی تبلیغ نہیں کرتا ہے. جہاں اسلام اللہ کے الفاظ پر مبنی ہے، بدھ مت گوتم بدھ کے الفاظ پر مبنی ہے. ایک مذہب بننے سے زیادہ، بدھ مت ایک فلسفہ ہے جس میں مختلف روایات، طر        

                                                                                                       حوالہ جات

1.    دنیا کے بڑے مذاہب                                 عماد الحسن آزاد  فاروقی

2.       تقابلِ ادیان                 مولانا پروفیسر محمد یوسف خان صاحب مدظلہ) استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور(

3.    گوتم بدھ سوانح حیات و تعلیمات                   ڈاکٹر م حفیظ سید           )انجمن ترقی اردو ہند(

4.      تفہیم القرآن                                                     مولانا سید ابو الاعلی مودودی

 

Post a Comment

2Comments
Post a Comment
.