حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دبستانِ فقہ

1

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دبستان فقہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دبستانِ فقہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دبستانِ فقہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فقہی اقوال وآرا کی روشنی میں جو مکتب فقہ وجود میں آیا اسے " دبستانِ فقہ " کہتے ہیں. 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے تھے. بعض لوگوں نے چھٹا مسلمان لکھا ہے اور بعض نے انیسواں اور بعض نے تیسواں مسلمان لکھا ہے. جب آپ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت آپ کی عمر 15 سال سے متجاوز تھی, آپ کو رسول اللہ ﷺ نے دعا دی تھی 

           " تم بہتوں کو پڑھانےوالے لڑکے ہو "

آپ کانام:عبد للہ،کنیت:ابو عبد الرحمان،والد کا نام:مسعوداور والدہ کا نام ام عبد تھا ۔

آپ نے حبشہ اور مدینہ دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل کیا عہد رسالت کے تقریباً تمام معرکوں میں شریک ہوئے. آپ کا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قدر آنا جانا تھا کے لوگ آپ کو رسول اللہ ﷺ کے خاندان کا فرد سمجھتے تھے 

آپ علم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ خیال کیے جاتے تھے. 70 سورتیں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی تھی آپ کو معلم امت  کہا جاتا ہے کوفہ میں بیک وقت چار ہزار (4000) طالب علم حاضر ہوتے تھے. 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قبولِ اسلام کے بعد خود کو حضورﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ آپؓ ہر وقت سایے کی طرح رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں، گھر کے اندر ہوں یا باہر، ہر وقت آپﷺ کے ساتھ ہی رہتے۔ آپﷺ کا بستر بچھاتے، وضو کرواتے، مسواک اور عصا لاکر دیتے، سواری کی باگ تھامتے۔آپﷺ نے ابنِ مسعودؓ کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ جب چاہیں، حجرۂ مبارک میں داخل ہوجائیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پڑھے لکھے نوجوان تھے اور ہر وقت ساتھ رہا کرتے تھے، چناں چہ آنحضرتﷺ نے آپؓ کو’’ کاتبِ وحی‘‘

کے عظیم منصب پر فائز کیا۔

کتاب اللہ کے علم میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ وہ خود فرماتے ہیں:

’’قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ قرآن کریم کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کے متعلق کوئی شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس کے پاس پہنچنا ممکن ہو تو میں وہاں پہنچ کر اس کے علم سے ضرور استفادہ کروں گا۔‘‘

ایک بار جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان عرفات میں وقوف فرما ہوئے تھے ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

’’امیر المومنین! میں کوفہ سے آیا ہوں۔ میں نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو قرآن میں دیکھے بغیر زبانی اس کی املائ کراتا ہے۔‘‘ یہ سن کر انھوں نے خشمگیں لہجے میں پوچھا:

 تیرا برا ہو‘ کون ہے وہ شخص؟ 

 عبداللہ بن مسعود(رض)۔  اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔

یہ سن کر بتدریج ان کے غصے کا اثر زائل ہو نے لگا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی معمول کی حالت پر آگئے۔ پھر انھوں نے فرمایا:

 بخدا میں نہیں جانتا کہ ان سے زیادہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کا حق دار ہے 

سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا شمار ان جلیل القدرصحابہ کرام میں ہوتاہے جو علم وفضل کے اعتبار سے اپنے دور کے امام تھے۔اس بات کی گواہی حضرت مسروق نے ان الفاظ میں دی ہے:

شاممت اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجدٹ علمہم انتہیٰ الیٰ ستۃ ……ثم شاممت الستۃ فوجدت علمہم انتہیٰ الی علی وعبداللہ"

(سیر اعلام النبلاء ج3 ص217)

میں نے تمام صحابہ کا علم چھ۔ میں جمع پایا اور۔ پھر ان چھ کا علم دو میں سمٹ گیا۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہ۔

آپ ان صحابہ میں سے ہیں جو فقہ کے بانی تھے یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اجتہادات وفقہ پر ہے آپ کی فقہی بصیرت کو دیکھتے ہوئے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوفہ کا معلم بنا کر بھیجا اور لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں علمی حلقہ درس قائم فرمایا اور مسلمانوں میں مسائل فقہیہ کی ترویج واشاعت فرمائی۔کوفہ میں آپ ہی کی فقہ نے شہرت حاصل کی۔ یہ فقہ کئی ایک حضرات سے گزر کر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی تک پہنچی،جنہوں نے اپنے علم واجتہاد سے اس فقہ کو اس قدر وسعت دی کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اسی فقہ کی روشنی میں دین پر چل رہی ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث ،فقیہہ اور مجتہد بھی،آپ تفسیر بالرائے کی سختی سے مخالفت کرتے تھے آپ کا نظریہ یہ تھا کہ بندہ جس چیز کو نہ جانتا ہو اس سے لاعلمی کا اظہار کردے اپنی طرف سے بات نہ بتائے۔آپ رضی اللہ عنہ بلند درجہ کے محدث بھی تھے

اور اگر فقہ حنفی کی بات کی جائے تو ان کے لیے بھی ایک اعزاز ہے کہ فقہ حنفی کی تعلیمات اور روایات کا مرجع ومنبع جناب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے ان کی علمی خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فہ کی ایک گلی سے گزر ہے تھے کہ کچھ عورتوں کو مسائل پر گفتگو کرتے سنا تو فرمایا۔ 

 اللہ تعالیٰ ابن مسعود پر رحم فرمائے ،انہوں نے کوفہ کو علم سے بھر دیاہے 

یہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی فقہی بصیرت تھی جو ان کے شاگردوں علقمہ اور ابراہیم نخعی کے ذریعے امام اعظم ابو حنیفہ تک پہنچی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پور ی دنیا میں پھیل گی اور مسلم دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد فقہ حنفی سے وابستہ ہے امام ابوحنیفہ کی یہ عظیم الشان اورشاہکار فقہی بصیرت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرہون منت ہے۔

آپؓ کا 32ہجری میں 63سال کی عُمر میں انتقال ہوا اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔بعض روایات کوفے میں تدفین سے متعلق بھی ہیں۔

طبقات ابن سعد میں کوفہ کے فقہاءومحدثین کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا 

حوالہ جات

(طبقات ابن سعد) 

(فقہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) 

(سیر اعلام النبلاء ج3 ص217)

Post a Comment

1Comments
Post a Comment
.