تعلیم کی لغوی و اصطلاحی تعریف
علم کی تعریف
علم کے معنی ہے جاننا، پہچاننا، حقیقت کا ادراک کرنا، یقین حاصل کرنا، محسوس کرنا اور محکم طور پر معلوم کرنا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ
متعدد مواقع پر استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ارشاد
ربانی ہے:
عَلِمَ
اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ[1]
” ا للہ تعالی جانتے تھے کہ
تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ۔ “
ایک اور جگہ فرمایا:
لٰـكِنِ اللّٰهُ يَشۡهَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ
اِلَيۡكَ اَنۡزَلَهٗ بِعِلۡمِهٖ ۚ 2
”یہ کافر لوگ مانیں یا نہ مانیں لیکن اللہ نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں وہ خود گواہی دیتا ہے کہ اس نے اسےاپنے علم سے نازل
کیا ہے ۔“
ایک اور جگہ مضارع کا صیغہ
استعمال کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللّٰهُ
يَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ 3
”اور اللہ وہ
باتیں بھی جانتا ہے جو تم چھپ کر کرتے ہو، اور جو بھی تم کُھلےمیں کرتے ہو۔“
اصطلاح میں علم کی تعریف
ہے کہ:
إدراك الشيئ بحقيقته ” کسی چیز کی حقیقت کو پہچانا۔ تعلیم کسی کو سکھلانا، بتانا، سمجھانا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
”وَعَلَّمَكَ
مَا لَمۡ تَكُنۡ تَعۡلَمُؕ “
”اور
تم کو ان باتوں کا علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔“[2]
ایک اور جگہ فرمایا:
”وَيُعَلِّمُهُمُ
الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ “
”اور
انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ، اور ان کو پاکیزہ بناۓ۔“2
تعلیم کا معنی و مفہوم
اصل کے اعتبار سے تعلیم لفظ "علم" سے ماخوذ ہے۔ علم کے معنی کسی چیز کو جاننا یا حقیقت کی گہرائی کا اندازہ لگانا ہیں۔ انگریزی زبان
میں تعلیم کےلیے ایجو کیشن (Education) کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو کہ لاطینی زبان کے لفظ ”educere“ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب
رہنمائی کرنا ہے ۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
Education is a process of teaching, training and learning, especially in schools or colleges, to improve knowledge and develop skills .3
تعلیم خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں میں سکھانے، تربیت دینے اور سکھنے
کا ایک عمل ہے جس سے علم میں اضافہ ہو اور مہارت
حاصل کی جائے۔
تعلیم مسلم مفکرین کے نزدیک
امام غزالی فرماتے ہیں: ”تعلیم وہ عمل ہے جس کے ذریعے فرد کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کر سکے اور نیکی و بدی
میں تمیز کر
سکے۔“
ابن خلدون کے نزدیک: ”تعلیم کا مقصد حقیقت کا علم حاصل کر نا ہے جو پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔“
شاہ ولی اللہ کے نزدیک: ”تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے فرد میں خیر وشر کا شعور پید اکر کے خیر کو اپنانے اور شر کو دبانے کے قابل
بنایا جا تا ہے
۔“[3]
مندرجہ
بالا افکار سے تعلیم کا مفہوم کچھ یوں نکلتا ہے :
1.
انسان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی نشوو نما
2.
آئندہ زندگی کو خوشگوار بنانے کی تیاری
3.
انسان کومثالی شہری بنانا
4. نیکی
و بدی کی پہچان
5. معرفت
خودی
6. عرفان خداوندی اور رضاۓ الہی کا حصول
تعلیم کی ضرورت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
تعلیم کی ضرورت و اہمیت قرآن کی روشنی میں
ملک کی ترقی کا انحصار تعلیم پر
ہوتا ہے۔ جس ملک میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے اس ملک کے باشندے دوسرے ملکوں پر
حکمرانی کرتے ہیں اسلام میں تعلیم کو بہت فوقیت دی گئی ہے۔اسلام میں علم کی اہمیت
اس بات سے ہی واضح ہو جاتی ہے کہ آپ ﷺ پر سب سے پہلی وحی علم کے بارے میں نازل ہوئی۔اللہ
تعالی چاہتے تو وحی کا آغاز کسی اور چیز سے بھی کر سکتے تھے مگر علم سے کیا اسی
بات سے ہمیں علم کی اہمیت کا معلوم ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ
”اِقۡرَاۡ
بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ اِقۡرَاۡ وَ
رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ .عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ
یَعۡلَمۡ “
”پڑھو (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو، اور تمہارا
رب بڑا کریم ہےجس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا،انسان
کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔“[4]
نبی اکرمﷺکی بعثت کا ایک مقصد
علم سکھانا ہے۔
”ھُوَ
الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ
اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اِنۡ
کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡن۔“
”وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا
ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ
اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی گمراہی میں
تھے۔“[5]
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کی اپنی بارگاہ ِ اقدس میں فضیلت بیان کرتے ہوئے
ارشادفرمایا:
’’يَرْفَعِ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللّٰـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ
خَبِیْرٌ ‘‘
’’اللہ عزوجل تمہارے ایمان والوں کے اور ان
کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ عزوجل کو تمہارے کاموں کی خبر ہے
۔ “[6]
اس
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان والے اور علم والے ہیں اللہ ان لوگوں کو بہت اعلیٰ مقام پر فائز کریں گے ۔ان
کو بے شمار انعامات سے نوازا جائے گا ۔ بے
شک اللہ ہر بات سے اور ہمارے ہر کام سے با خبر ہے۔
ایک
اورمقام پہ ارشادفرمایا:
’’كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ
الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ “
’’اللہ والے ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب
سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو
۔ “[7]
اسی
طرح قرآن مجید میں جہاں اللہ عزوجل نے جگہ جگہ آقا کریم ﷺ کی خوبیوں کا ذکر فرمایا وہاں آپ ﷺ کی بعثت مبارک کا مقصدبیان
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
” كَمَاۤ
اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ
یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا
لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ“
’’جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں
سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ
علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا ۔ “[8]
علم کی اہمیت کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی کہ
ہر وقت علم میں اضافہ کی دعا مانگتے رہیں۔
’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا
‘‘ ” اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم
زیادہ دے۔ “[9]
ان سب قرآنی آیات سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے علم حاصل کرنے پر کتنا زور دیا ۔
تعلیم کی ضرورت و اہمیت حدیث کی روشنی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ صحابہ کرام کو علم حاصل کرنے پر زور دیتے تھے۔اس بات کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ کفار
کے جو جنگجوں غزوہ بدر میں مسلمان کے پاس قیدی بنے ان کی رہائی اس بات پر رکھ دی گئی کہ ہر بندہ دس آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ سے مرو ی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کروتو دلی مراد حاصل کرلیاکرو،عرض کی ،یارسول اللہ ﷺ! جنت کے باغ کیا ہیں؟آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:’’علم کی مجالس‘‘۔[10]
حضرت ابو الدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’ روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا‘‘۔[11]
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ(ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا اور میں نے اس سے دودھ پیا یہاں تک کہ اس کی سیرابی کا اثر میں نے اپنے ناخنوں میں ظاہر ہوتا دیکھا، اس کے بعدمیں نے اس کا بچا ہوا دے دیا۔آپ کا اشارہ حضرت عمرؓ کی طرف تھا - صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ’’آپ ﷺ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: علم‘‘۔[12]
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص حصولِ علم کے لئے نکلا وہ اس وقت تک اﷲ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا‘‘ ۔[13]
حضرت کثیر بن قیسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے آقا کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’جو کسی راستہ پہ چلا جس میں علم کی تلاش کرتا تھا اللہ عزوجل اس کیلئے جنت کی طرف راستہ کو آسان فرما دیتا ہے اور بے شک فرشتے طالب علم سے خوش ہوکر اس کے لیے اپنے پربچھاتے ہیں اور اس طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہرچیز استغفارکرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی بخشش طلب کرتی ہیں۔بے شک عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے جس طرح چاند کی دیگر تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔بے شک علماء کے وارث ہیں۔انبیاء دینار اور درہم نہیں چھوڑتے، بے شک وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں جس نے علم حاصل کیا اس نے وافر حصہ لیا‘‘۔[14]
[3] مقبول
احمد ، علمی اساسیات علم التعلیم ( علمی کتاب خانہ ، لاہور،2015ء)،
ص:5-8
[4] العلق 6:96-1
[5] الجمعہ 2:62
[6] المجادلہ 11:58
[7] آل عمران97:3
[8] البقرۃ 151:2
[9] طہٰ 114:20
[10] الطبرانی،
سليمان بن احمد، المعجم الكبیر ، باب مجاهد،
عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما، رقم الحدیث: 11158
[11] يوسف
بن عبد الله بن محمدؒ( المتوفى: 463ھ)، جامع بیان العلم وفضلہ، ج 1، ص 150
[12]بخاری،
محمد بن اسماعیل، صحیح
البخاری ،ج 9،ص 35،رقم الحدیث: 7006
[13] الترمذی،
محمد بن عيسى، سنن الترمذی، باب العلم رقم
الحدیث:2647
[14] ابن ماجہ، محمد بن يزيد، سنن ابن ماجہ، باب فضل العلما ، ج 1، ص 81،رقم الحدیث:222