منافق کی نشانیاں قرآن کی روشنی میں
(1)
دھوکہ
باز
الله تعالى منافقین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ منافق ہمیشہ
دھوکہ باز ہوگا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”يُخٰدِعُوۡنَ
اللّٰهَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا يَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا
يَشۡعُرُوۡنَؕ ۞“[i]
” دھوکہ دیتے ہیں وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو
جو ایمان لائے اور نہیں دھوکہ دیتے وہ
مگر اپنے آپ کو اور وہ نہیں سمجھتے “
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی منافق کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ منافق دھوکہ باز ہوگا۔وہ اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتا
ہے اور اہل ایمان کو بھی دھوکہ دیتا ہے وہ اس بات کو بہت اچھے سے جانتا ہے کہ وہ اللہ کو ہر گز دھوکہ نہیں دے سکتا لیکن پھر بھی وہ اپنی سوچ
کے مطابق دھوکہ دیتا
ہے لیکن در حقیقت وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ اور یہ بات وہ نہیں سمجھتا۔
(2) نماز میں سستی
نماز میں
منافقین کی سستی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ:
”
وَاِذَا قَامُوۡۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوۡا كُسَالٰى ۙ “[ii]
اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوں گے تو سستی
کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔“
اس آیت مبارکہ میں منافق کے نماز میں سستی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہیں کہ منافق کا کبھی نماز میں دل نہیں لگے گا۔ اور وہ نماز
سے ہمیشہ چرائے گا اور اگر کسی نہ کسی طرح نماز پڑھنے کے لیے تیار ہو بھی جائے۔تو سستی کے ساتھ نماز میں شریک ہوگا۔ اس کی ہر ممکن
کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی
طرح جان چھڑوا لی جائے نماز سے ۔
(3) فسادی ہونا
اللہ تعالیٰ نے منافقین کے فسادی۔ ہونے کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ :
”وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ
الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ۞اَلَا ۤ اِنَّهُمۡ هُمُ
الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ “[iii]
” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فسادمت کرو زمین میں تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں. یاد رکھو بیشک یہی لوگ فساد کرنے والے
ہیں
لیکن وہ اسکا شعور نہیں رکھتے“
منافقین زمین پر فساد پھیلاتے پھرتے ہیں اور جب انہیں غلط کاموں سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم تو صلح کروانے والے ہیں۔جیسے کہ وہ ہی
اس زمین پر اصلاح کرنے والے ہیں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ان منافقوں کی وجہ سے معاشرے میں مختلف قسم کے فساد برپا ہوتے ہیں جیسے یہ
ارد گرد کا مشاہدہ کیا جائے تو دو غلہ منافق شخص سے ہمیشہ فساد بڑھتا اور اگر کوئی ان کی اصلاح کے لیے کہے کہ ان برائیوں کو چھوڑ دو جو
معاشرے میں فساد کا باعث بن رہی ہیں تو وہ خود کو بڑے اصلاح
کرنے والے بیان کرتے ہیں اور اپنی برائیوں کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔
(4) اہل ایمان سے مذاق
منافقین کی ایک اور نشانی بیان کرتے ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:
”وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا
قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا
مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۞“[iv]
” اور جب ملتے ہیں وہ (منافقین) ان لوگوں سے جو ایمان لائے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں پہنچتے ہیں اپنے شریر
سرداروں کے پاس تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان
کے ساتھ مذاق کرتے ہیں “
منافقین کی ایک نشانی ہے کہ جب وہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو ایمان ایمان بول کر مومنین کا بھروسا حاصل کرتے ہیں۔ اور جب ان کے سردا ر پو چھتے ہیں کہ تم تو ایمان والوں کے ساتھ تھے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم دل سے تو آپ کے ساتھ ہیں مسلمانوں سے تو ہم صرف مذاق کرتے ہیں۔ منافق کی ایک یہ علامت بھی ہے کہ وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یعنی وہ ہمیشہ ۔ اللہ اور ا سکار سول اور مومنین ہی کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں ملتا۔ مومنین کا مذاق اڑانا منافق کی فطرت ثانیہ ہے۔
(5) امر بالمنکر و نھی عن المعروف
منافقین کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کا
ارشاد ہے کہ :
”اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ
بَعۡضُهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍۘ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡكَرِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ
الۡمَعۡرُوۡفِ“[v]
”منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں اور اچھی بات سے منع کرتے ہیں ۔“
منافق کی خطرناک نشانی ہےکہ نہ صرف مرد بلکہ منافق عورتیں بھی لوگوں کو گمراہ کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا بس یہی کام ہے کہ لوگوں کو جیسے بھی ہو سکے راہ راست سے بٹایا جائے اور ان کا ذہن برائیوں اور فضول باتوں کی طرف موڑا جائے۔ پھر وہ منافق مرد ہو یا عورتیں سب اسی کام میں لگے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود تو دل سے مسلمان نہیں ہوتے اور جو اہل ایمان میں انہیں بھی اسلام اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جبکہ اہل ایمان ان کے بالکل مختلف نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیتے ہیں. اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دور حاضر میں بھی لوگ مختلف بہانوں سے ، طریقوں سے اہل ایمان کو برائیوں کی ترغیب دیتے ہیں اور پھر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی ایسے کام کر گا وہ منافقین میں سے ہے اور اس کا انجام بہت برا ہوگا۔
( 6) اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روکنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
”هُمُ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ لَا
تُنۡفِقُوۡا عَلٰى مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنۡفَضُّوۡاؕ وَلِلّٰهِ
خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَا يَفۡقَهُوۡنَ
۞“[vi]
”یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا
مالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں“
اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نشانی بیان فرمائی ہے کہ منافق خوداللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکیں گے۔ وہ ان کے مال خرچ نہ کرنے کے پیچھے یہ مقصد ہوتا کہ جو غریب صحابہ ہیں وہ آپ ﷺکا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور نشانی منافقوں پر بھی بالکل صحیح ثابت ہوتی آئی ہے۔ منافق اللہ کی راہ میں کبھی بھی خرچ نہیں کرتا اور اگر کسی کے کہنے پر یا مجبورہو کر دیتا بھی ہے تو جھوٹا صبر اپنا نفاق چھپانے کے لیے اور وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ لوگوں کو بھی اس سے روک سکے۔
( 7) جہاد سے کراہت
اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی
نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
”فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِهِمۡ
خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوۡۤا اَنۡ يُّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ
وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِى الۡحَـرِّؕ
قُلۡ نَارُ جَهَـنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاؕ لَوۡ كَانُوۡا يَفۡقَهُوۡنَ ۞“[vii]
”جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ "اس سخت گرمی میں نہ نکلو" ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا“۔
اللہ تعالی منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منافقین کو جہاد میں جانا بالکل پسند نہیں ہے ۔ ان کو جب بھی جہاد پر جانا نے کا حکم دیا جاتا ہے یہ مرنے کے ڈر سے جہاد پر جانے سے جی چراتے ہیں اور مختلف قسم کے بہانے بنانے شروع کر دیتے ہیں۔اور جب یہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہماری جان بچ گئی۔ یہ نہ صرف خود جہاد کے لیے نکلنے سے گھبراتے ہیں بلکہ اپنا مال بھی جہاد پر خرچ کرنا ان کے لیے بہت مشکل کام ہے ۔ ان کو لگتا ہے مال جہاد پر خرچ کرنے سے کم ہو جائے گا۔جب بھی منافق کے سامنے جہاد کا نام لیا جاتا ہے ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔
( 8) اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تکذیب
منافقوں کے بارے میں ایک اور سورۃ میں الله تعالی
فرماتے ہیں کہ :
”وَاِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ
وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ
اِلَّا غُرُوۡرًا “[viii]
”یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سِوا کچھ نہ تھے”۔
منافقین کی نشانی ہے کہ وہ اللہ اور اسکے ،رسول پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ اور رسول کی طرف سے جو حکم آتے ہیں ، وعدے کیے جاتے ہیں وہ چاہے خوشخبری سنانے کے لیے ہوں یا وہ ڈرانے کے لیے ہوں وہ انہیں نہیں مانتے اور جھوٹ خیال کرتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کام سے روکا گیا ہے اور اس پر عذاب سے ڈرایا گیا ہے تو وہ کام تو ہو رہا ہے پھر عذاب کیوں نہیں آیا؟ جب کہ اللہ تعالٰی اسے اپنی رحمت یاکسی مصلحت کے تحت نہیں کرتے مؤخر کر دیتے ہیں. اپنے کمزور عقیدے کی بنا پر وہ اللہ اور اسکے رسول کی باتوں پر,احکام پر عمل نہیں کرتا اور ان پر ایمان نہیں لاتا جیسا کہ مومن ایمان لاتے ہیں۔ مومن کی علامت ہے کہ :
سر
تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں ہے۔
( 9) شک و شبہ کا شکار
الله
تعالیٰ منافقین کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
” مُّذَبۡذَبِيۡنَ بَيۡنَ ذٰ لِكَ لَاۤ
اِلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ وَلَاۤ اِلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَلَنۡ
تَجِدَ لَهٗ سَبِيۡلًا “[ix]
”کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اس طرف ہیں نہ پورے اُس طرف ۔ جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔“
منافق شخص کبھی بھی کسی ایک گروہ کے ساتھ الحاق نہیں کرتا اسے جس طرف بھی تھوڑا نفع معلوم ہوتا ہے وہ ان کی طرف ہو جاتا ہے ۔ اور جیسے ہی ایک طرف سے مشکل پیش آئی وہ دوسری طرف چلا جاتا ہے یعنی وہ کفار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور اہل ایمان کے ساتھ بھی ۔ وہ نہ تو پوری طرح کفار کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور نہ ہی پوری طرح اہل ایمان کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے اگر وہ پوری طرح کفار کے ساتھ شامل ہو گیا تو مومنین اسے چھوڑ دیں گے اور اگر مومنین کے ساتھ شریک ہو گیا تو کفار اسے چھوڑ دیں گے۔ منافق ہر وقت موقع کی تلاش میں ہوتا ہے جہاں سے اسے فائدہ ملے وہ انہیں کے ساتھ ہو جائے اسے کسی گروہ سے کوئی سروکار نہیں۔ ہوتا اسے بس اپنے مفاد سے فرق پڑتا ہے۔ اس لیے وہ کبھی کفار کے ساتھ ہوتا تو کبھی اہل ایمان کے ساتھ۔
( 10) حوصلہ شکنی کرنا
منافقوں سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:
“وَاِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ
يٰۤـاَهۡلَ يَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمۡ فَارۡجِعُوۡا ۚ وَيَسۡتَاۡذِنُ فَرِيۡقٌ
مِّنۡهُمُ النَّبِىَّ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُيُوۡتَنَا عَوۡرَةٌ ۛؕ وَمَا هِىَ بِعَوۡرَةٍ
ۛۚ اِنۡ يُّرِيۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ۞“[x]
”جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ”اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو۔ “جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کررہا تھا کہ ”ہمارے گھر خطرے میں ہیں ،“حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے ، دراصل وہ (محاذِجنگ سے ) بھاگنا چاہتے تھے“۔
اللہ تعالیٰ منافقین کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے تو یہ کہ وہ جہاد پر جائیں گے نہیں اور اگر اپنا نفاق چھپانے کے لیے چلے بھی جائیں تو وہ دوران جنگ مسلمانوں سے ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں گے کہ ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور وہ اپنا ارادہ بدل لیں۔ دوسرا یہ کہ وہ لوگوں کو آہستہ آہستہ میدان جنگ چھوڑ جانے پر اکسائیں گے کہ خور بھی میدان جنگ سے جان چھڑوا کر بھاگ جائیں اور اپنے ساتھ اور لوگوں کو بھی لے جائیں تاکہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ کفار سے ڑر کر بھاگ جائیں۔ منافقین کا یہ ردعمل ہر دور میں رہا ہے اور ایسے ہی رہے گا۔ جو بھی شخص میدان جنگ میں یہ کردار ادا کرے گا وہ منافق ہی ہوگا کیونکہ مومن کبھی میدان جنگ سے ڈر کر نہیں بھاگتا یہ منافقوں کا شیوہ ہے۔
[i] البقرہ 9:2
[ii] النساء 142:4
[iii] البقرہ 11:2 -12
[iv] البقرہ 14:2
[v] التوبہ 67:9
[vi] المنافقون
7:63
[vii] التوبہ 81:9
[viii] الاحزاب 12:33
[ix] النساء
143:4
[x] الاحزاب
13:33