غیر مسلم کی خوشی و غم میں شرکت

0

 

غیر مسلم کی خوشی و غم  میں شرکت

غیر مسلم کی خوشی و غم  میں شرکت

اسلام مسلمانوں سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ غیر مسلموں کے خوشی و غم میں بھی شریک ہوں ، رسول اللہﷺ اس چیز کا بھی خیال

 رکھتے تھے، اگر کوئی غیر مسلم بیمار پڑھ جاۓ تو اس کی عیادت کیا کرتے تھے ، ایک یہودی نوجوان جو آپﷺ کے ساتھ آمد و رفت رکھتا تھا

 اور محبت کے ساتھ آپﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، بیمار پڑھ گیا توآپ نے اس کی عیادت فرمائی۔ [1]

حضرت علیؓ نے اپنے والد کے انتقال پر دریافت فرمایا : ان کو کون دفن کرے گا ، آپﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنے باپ کو دفن کرو  ، حضرت

 علیؓ نے عرض کیا وہ ہدایت سے محروم تھے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اپنے باپ کو دفن کرو پھر کوئی اور کام کیے بغیر سیدھا میرے پاس

 آؤ ، میں گیا اور انہیں دفن کیا اور پھر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریمﷺ نے مجھے غسل کا حکم دیا اور دعا فرمائی ایسی دعا کے

 اس کے عوض مجھے سرخ اونٹ (دنیا جہاں کی دولت) بھی پسند نہیں ۔                    [2]

 جس طرح اسلام میں غیر مسلم کی عیادت کرنے کی اجازت ہے اسی طرح تعزیت کرنے اور جنازے میں بھی شرکت کرنے کی تلقین کرتا

 ہے۔ کیونکہ غیر مسلم بھی انسان ہیں ان کے خوشی و غم میں شمولیت حدود میں رہتے ہوۓ جائز ہے ۔ کہیں سے بھی جنازہ گزرے کھڑے ہو

  جانا چاہیے اگر یہ جنازہ غیر مسلم کا بھی ہو تو بھی یہی حکم ہے ، ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اللہﷺ کھڑے ہوگئے۔ صحابہ نے

 عرض کیا یہ تو یہو دی کا جنازہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

الست نفسا [3]

" کیا وہ انسان نہیں تھا؟ "

یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں۔

 

 

غیر مسلموں سے کاروباری تعلقات



[1] ۔بخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح البخاری، کتاب اکر قاق، باب صفتہ الجنتہ النار، رقم الحدیث: ٢٥٥٧

[2]  ۔  ابوداؤد ، سیلمان بن اشعث ، السنن ابی داؤد، کتاب الجنائز ، باب الرجل یموت قتراتہ مشرکہ، رقم الحدیث : ۳۲۱۴

[3]  ۔ بخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح البخاری، کتاب الجنائز ّ باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب وقال اللہ عزوجل{ و بشرین الصابرین }، رقم الحدیث :  ١٢٥٠

 


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.