حضرت ابو بکرصدیق ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں بہت ہنگامے برپا ہوئے ۔ آپؓ کے عہد میں منکرین زکوٰۃ نے ملک بھر میں انتشار پھیلا دیا۔ اس ہی زمانے میں نبوت کے جھوٹے داویدار بھی سامنے آئے اور عجیب و غریب الہامات کی بھر مار کر دی۔ حقیقت میں یہ سب منافقین تھے جو آپﷺ کی حیات مبارکہ میں مسلمانوں کی طاقت اور وحی کے نزول کے پیش نظر اپنا نفاق چھپائے ہوئےتھے اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
بقول
علامہ شبلی نعمانی :
” آپﷺ نے جس وقت وفات پائی مدینہ منورہ منافقوں سے بھرا پڑا تھا جو مدت سے اس بات کے منتظر تھے کہ آپﷺ کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کو پامال کر دیں “۔[1]
ابو القاسم بغوی و ابو بکر شافعی نے فوائد میں اور ابن عساکر نے حضرت عائشہؓ کی زبانی لکھا ہے کہ:”آپؐ کی رحلت کے بعد نفاق کی بلا پھوٹ پڑی اور منافقوں نے سر اٹھا لیے۔عرب مرتد ہونے لگے۔ انصار یکسو ہو کر بیٹھ گئے۔ اگر اتنی مصیبتیں کسی مضبوط اور بلند پہاڑ پر آتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن والد حضرت ابو بکر نے نہایت استقلال سے ان مشکلات کا حل نکالا۔ سب سے پہلا فتنہ یہ اٹھایا گیا کہ آپؐ کو دفن کہاں کیا جائے؟ تو حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں نے آپؐ کو فرماتے سنا ہے کہ جو بنی جس مقام پر انتقال کرتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے ۔پھر دوسرا فتنہ میراث اور ورثہ کا اٹھایا گیا جس کے فیصلے کے بارے میں لوگ بہت بے قرار تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ” میں نے آپ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم گروہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم میراث چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔“ [2]
حضرت عائشہ ؓ کے اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ کی وفات کے فوراً بعد ہی منافقین نے مسلمانوں میں اختلاف برپا کرنا شروع کر دیا۔ منافقین نے مسلمانوں میں فساد ڈالنے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے حضرت ابو بکر ؓ نے بروقت صحیح فیصلے کر کے ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
خلیفہ کے انتخاب میں منافقین کا کردار
مدینہ میں منافقوں کی جماعت ہمیشہ سے موجود تھی جو ہر موقع پر اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت پیش کرتی تھی۔ چونکہ آپ نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا اس لیے آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں کو فساد برپا کرنے کا موقع مل گیا۔آپؐ کی وفات کے فوراً بعد ہی منافقین نے آپؐ کی جانشینی کا مسئلہ چھیڑ دیا اور انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر جانشینی کا دعویٰ کیا۔ یہ مسئلہ ایسے نازک موقع پر چھڑا تھا کہ اگر اس کا فوراً کوئی حل نہ نکالا جاتا تو آپ کے وصال کے ساتھ ہی اسلام کا شیرازہ درہم برہم ہو جاتا لیکن حضرت ابو بکر صدیق کو اس واقعے کی بر وقت اطلاع مل گئی۔ آپ فوراً حضرت عمر اور امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہی بنا ہوا تھا۔ انصار چاہتے تھے کہ آپؐ کی جانشینی میں انہیں بھی حصہ ملنا چاہیے اور قریش کے ساتھ ان کی جماعت میں سے کوئی نائب الرسول یا امیر ہونا چاہیے ہو سکتا تھا کہ انصار کو ہی تنہا یہ منصف مل جاتا لیکن قریش دوسرے عرب قبائل قریش کے علاوہ کسی خاندان کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے تھے ۔ اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت نرمی سے انصار کو سمجھایا۔ ان کی اسلام کے لیے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد آپ نے قریش کے مناقب بیان فرمائے اور فرمایا کہ:
آپ نے فرمایا ہے کہ خلیفہ ہمیشہ قریش سے ہی ہوگا۔ اس فرمان نبوی کو سننے کے بعد انصار نے سر تسلیم خم کر دیا ۔ منافق جو اس مسئلہ کو اتنا اچھال رہے تھے کہ مسلمانوں میں فساد برپا کر سکیں ان کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ [3]
اس واقعہ سے ناصرف حضرت ابوبکر کے کمالات کا پتہ چلتا ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافقین کی سازشوں کا بھی علم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کے لیے انہوں نے فتنے کھڑے کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
منافقین بحرین کا ارتداد
سیف سے مروی ہے کہ حضرت علاء بن الحضرمی بحرین روانہ ہوئے، بحرین کا قصہ کچھ یوں تھا کہ رسول الله اور حضرت منذر بن ساوی ایک ہی مہینے میں بیمار ہو گئے ۔ حضرت منذر کا آپ کے بعد ہی انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد اہل بحرین مرتد ہو گئے جن میں عبد القیس پھر سے اسلام لے آئے البتہ مکر مرتد ہی رہے جس شخص کی کاوشوں اور کوشش سے عبدالقیس دوبارہ اسلام لائے وہ جارود تھے۔
جارود بن عمرو بن حنش بن معلیٰ کے علاوہ تمام بنی ربیعہ اور عربوں کے ساتھ اہل بحرین بھی مرتد ہو گئے۔ البتہ جب ان کو رسول الله کی وفات اور عربوں کے مرتد ہونے کی اطلاع ملی تو جارود اور ان کے قبیلے والے اسلام پر ثابت قدم رہے ۔انہوں نے اعلان کیا کہ سوائے اللہ کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور اعلان کرتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور میں ان تمام لوگوں کو جو اس بات کا اقرار نہیں کرتے انہیں کافر قرار دیتا ہوں۔ بنی ربیعہ بحرین میں جمع ہوئے اور مرتد ہو گئے۔ انہوں نے کہا ہم اس علاقے کی حکومت کو حضرت منزر کے خاندان کو دیتے ہیں چنانچہ انہوں نے منزر بن النعمان بن المنذر کو اپنا بادشاہ بنالیا۔ اسے غرور یعنی فریب کہا جاتا تھا مگر جب تمام لوگ تلوار کے زور سے دوبارہ اسلام لائے تو وہ خود کہا کرتا تھا کہ میں قریب نہیں فریب خوردہ ہوں۔ [4]
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد منافقین کا مکروہ چہرہ اور انکا کردار واضح ہوگیا کہ جب تک مسلمانوں نے ان کو تلوار کے زور پر دبائے رکھا وہ اسلام پر عمل پیرا رہے لیکن آپ کی وفات کے بعد جوں ہی مسلمانوں کی توجہ ان سے ہٹی، ان کا نفاق واضح ہو گیا اور وہ مرتد گئے۔ لیکن جب مسلمانوں نے حالات کو قابو میں کر کے ان کی طرف توجہ دی تو پھر تلوار کے ڈر سے اپنا نفاق چھپانے کے لیے اسلام قبول کر لیا لیکن یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ مسلمانوں کی طاقت کے ڈر سے اور مسلمانوں میں فساد پھیلانے کی غرض سے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ مختصر یہ کہ عہد نبوی کی طرح عہد صدیقی میں بھی منافقین کا بہت زور تھا جسے حضرت ابو بکر صدیق نے بہت عقل مندی اور اپنی فہم و فراست سے انکا خاتمہ کیا۔
مانعین زکوة:
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللهﷺ کی وفات کے بعد کچھ عرب مرتد ہو گئے اور کہنے لگے ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوة نہیں دیں گے ۔ میں نے یہ واقعہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو بیان کیا اور کہا کہ :
”اے خلیفہ رسول
الله تالیف قلوب کے لیے لوگوں پر نرمی فرمائیے کیونکہ یہ جانوروں کی مانند ہیں“۔
حضرت
ابو بکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ :
”اے عمر مجھے تم سے امداد کی توقع ہے تم یہ کمزوری کیوں دکھارہے ہو۔ زمانہ جاہلیت میں تم بڑے طاقت ور تھے زمانہ اسلام میں یہ کمزوری کیوں؟ بتاؤ میں کس ذریعہ سے ان لوگوں کی تالیف قلوب کروں؟ آیا باتیں بناؤں، جادو کروں؟ افسوس افسوس سرورِ عالم ﷺنے رحلت فرمائی اور وحی بند ہو گئی ہے۔ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے بخداز زکوٰۃ نہ دینے والوں سے جہاد کروں گا۔ یہاں تک کہ وہ زکوٰة کی پوری رقم ادا کردیں“۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو میں نے اس معاملہ میں اپنے سے بھی زیادہ مستعد، تیار اور احکام جاری کرنے والا پایا ہے اور فرمایا :
”جب تم کو ان کا
حاکم بنایا جائے گا تو اس وقت ان کی غمگساری کا تم کو پتہ چلے گا“۔[5]
ان واقعات سے منافقین کے کردار کی پہچان ہوتی ہے کہ پہلے تو صدقات خود پہنچانے کا اقرار کر کے پھر اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے۔ انکا مقصد صرف مسلمانوں کو اور خلیفہ کو تنگ کرنا تھا ورنہ اگر انہوں نے دل سے اسلام قبول کیا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ صدقات کا مال نہ پہنچاتے۔ جو منافق جہاں کہیں بھی جس حالت میں تھا وہ شر انگیزوں کے ذریعے فتنہ پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا تھا چاہے وہ زکوٰۃ کا انکار کر کے ہو یا نماز کا انکار کر کے۔ مقصد یہی تھا کہ اسلام اور امت مسلمہ کی وحدت کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق کا عزم تھا جس نے امت کو انتشار سے بچا لیا۔ یہی عزم تھا جس نے فتنہ ارتداد اور فتنہ منع زکوٰۃ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ سارے ملک میں امن و استحکام قائم کیا اور اسلامی نظام میں چٹان کی سی مضبوطی پیدا ہو گئی اور اس کام میں تقریباً چھ ماہ لگ گئے۔[6]
حضرت عمر ؓ کےعہد میں منافقین کا سیاسی کردار
حضرت عثمان ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار
حضرت علی ؓ کے عہد میں منافقین کا سیاسی کردار
[1] شبلی نعمانی ،
الفاروق ، مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور ، س ،ن ، حصہ اول، ص 76
[2] سیوطی ، عبد الرحمن ، تاریخ الخلفاء ، نور محمد کارخانہ
تجارت کتب آرام باغ کراچی ، س ن ، ص 73
[3] ندوی ، معین الدین احمد، تاریخ اسلام، ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل پاکستان چوک کراچی 1974ء ، حصہ اول، ص 131-130
[4] طبری، محمد بن
جریر، تاریخ طبری، ج 2، ص 519 : 520