مسلمانوں اور غیر مسلموں میں باہمی ہم آہنگی اور سیرت نبویﷺ

0
مسلمانوں اور غیر مسلموں میں باہمی ہم آہنگی اور سیرت نبویﷺ

مسلمانوں اور غیر مسلموں میں باہمی ہم آہنگی اور سیرت نبویﷺ

 سیرت نبویﷺ کے مطالعہ سے ایسے بے شمار   واقعات ملتے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کو قریب لانے اور   ہم آہنگی پیدا کرنے  کو آپﷺ کتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔شہر مدینہ کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ   غیر مسلم یہودی قبائل مدینہ میں پہلے سے ہی آباد تھے۔ یہود یہاں کیسے آئے اور کب سے آباد ہوئے اس حوالے سے کئی آراء ملتی ہیں  مثلاً:

·       بخت نصر کے حملہ (587قبل مسیح) میں جب بنی اسرائیل  تباہی کا شکار ہوئے تو ان کا ایک گروہ مدینہ میں آکر آباد ہوگیا۔

·       رومیوں کے ظلم سے تنگ آکر  70  سے 135 عیسوی کے درمیان بھی یہودی  مدینہ میں آکر آباد ہو گئے۔

·       بعض روایات کے مطابق  موسیٰ ؑ نے عمالقہ سےجنگ کے لیے کچھ یہودی سپاہیوں کو یہاں بھیجا جو بعد میں یہی آباد ہو گئے۔ [1]

 قاضی سلمان پوری نے اپنی کتاب ’’رحمت  للعالمین‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’نبی اکرمﷺ نے مدینہ پہنچ کر ہجرت کے پہلے ہی سال یہ ارادہ فرمایا کہ جملہ اقوام سے ایک معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کرلیا جائے تاکہ نسل اور مذہب کے اختلاف میں بھی قومیت کی وحدت قائم رہے اور سب کو تہذیب وتمدن میں ایک دوسرے سے مدد واعانت ملتی رہے ۔ “

  غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق  احادیث  ۔

حضر ت ابو بکرؓ  بیان کرتے ہیں کہ حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ من قتل معاھدا فی غیر کنھہ، حرم اللہ علیہ الجنۃ‘‘

’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (ذمی) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا‘‘۔[2]

’’صحیح بخاری ‘‘کی حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:

’’من قتل معاھدا لم یرح رالحۃ الجنۃ، و ان ریحھا تو جد من مسیرۃ اربعین عاما‘‘

’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (ذمی) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے‘‘۔

امام ابو عبید قاسم بن سلام نے ’’                        کتاب الخراج‘‘ میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور علیہ السلام کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے کہ:

’’اللہ اور اللہ کے رسول محمد ﷺ اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں ‘‘۔

  اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی۔غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس  طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے۔

امام حصکفیؒ نے ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان کیا  ہےکہ:

’’ویجب کف الا ذی عنہ وتحرم غیبتہ کا المسلم‘‘

’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اس طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا‘‘۔

آپﷺ نے میثاقِ مدینہ کی صور ت میں انہی تعلیمات کو عملی طور پر اس طرح نافذ فرمایا کہ نہ صرف مدینہ میں موجودتمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئےاور وہاں کافی عرصہ سے رائج  انتشار کی کیفیات   بدل گئیں  بلکہ اسلام کے فروغ کے لیے بھی دیر پا اثرات مرتب ہوئے جوکہ سرزمین ِعرب میں کفر و شرک کے خاتمہ کا باعث بھی بنے۔

  گویا تمام مسلمانوں و غیر مسلموں نے اس دستور کے تحت سیاسی، سماجی، عسکری، قانونی اور عدالتی اختیارات کا مرکز آپﷺ کی ذات مبارکہ کو تسلیم کر لیا۔میثاق مدینہ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات اس طرح مستحکم ہورہے تھے کہ یہود اور مشرک قبائل ان کے حلیف بن گئے اور ریاست مدینہ کے دفاع کی ذمہ داری کو سب نے مشترکہ طور پر قبول کر لیا۔

اس معاہدہ کی صور ت میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و  وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ ﷺ  کی صلح جو، اعلیٰ ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصور ابھرا۔اس طرح مخالفین نے آپ ﷺکے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں وہ ختم ہونےلگیں۔میثاق مدینہ کے تحت ریاست مدینہ میں ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کا قیام ممکن ہوا۔   آپﷺنے مدینہ میں رہنے والے تمام مسلم و غیر مسلم قبائل کو سیاسی وحدت میں یکجا فرما کر انہیں ایک قوم بنا دیا جس سے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے لگے-آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا:

’’انھم امۃ واحدۃ من دون الناس‘‘

’’تمام دنیا کے لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی‘‘۔

آپﷺنے مقامی لوگوں کے رسوم و قوانین کے احترام کا تصور بھی دیا تاکہ قومی سطح پر نظم و نسق پیدا کیا جا سکے۔ دیت کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ قرار دیا گیا کہ مہاجرین، قریش ، بنی عوف ، بنی حارث ، بنو  ساعدہ ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو اور بنو اوس وغیرہ خون بہا کی ادائیگی کیلئے اپنے اپنے قبائلی قوانین کے پابندی کریں گے۔ اس دستور کی روشنی میں تمام فریقین پر باہم ایک دوسرے کا دفاع لازم کردیا گیا فرمایا:

’’وان بینھم النصر علی من حارب اھل  ھذہ الصحیفۃ‘‘

’’اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے توان (یہودی اور مسلمانوں) میں باہم امدادعمل میں آئے گی‘‘۔

 ریاست مدینہ میں آباد تمام اقلیتوں کیلئے بھی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا تاہم انہیں اس امر کا بھی پابند کیا گیا کہ وہ آئین کی پابندی کریں گے اور کسی طور پر بھی آئین اور دستور کی خلاف ورزی یا معاشرہ میں فتنہ پر وری و ظلم   کا باعث نہیں بنیں گے۔

مدینہ کے مختلف طبقات کو جہاں آپ ﷺ نے ایک سیاسی وحدت میں یکجا فرمایا وہاں ہر طبقہ کو مکمل مذ ہبی آزادی بھی عطافرمائی اور ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو منع فرمایا۔فرمایا:

’’ وان یھود بنی عوف امۃ مع المومنین للیھود وینھم وللمسلمین دینھم‘‘

’’اور بنی عوف کے یہودی ، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین‘‘۔

ریاست مدینہ میں قائم یہ عظیم نظم و نسق ایسا منفرد اور انوکھا قدم تھا جس نے شہر مدینہ کے تمام طبقات کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ یکجا کر دیا غیر مسلم مفکرین نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اختلافات میں گِری ہوئی قوم کو حکمت و بصیرت کے ساتھ اتفاق و اتحاد میں لانا آپ ﷺ کا ہی کارنامہ تھا چنانچہ “Sir Thomas Arnold”اپنی کتاب  The Preaching of Islam   میں لکھتے ہیں ۔

We can understand how Muhammad could establish himself at Medina as the head of a large and increasing body of adherents who looked up to him as their head and leader and acknowledged no other authority……………without exciting and feeling of insecurity or any fear of encroachment on recognized authority”.

’’ان حالات میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محمد()نے کس طرح مدینہ کے مختلف النوع افراد سے بطور سربراہ اپنے آپ کو اپنے اختیار کو منوا لیا تھا (جو آپ کی کمال سیاسی بصیرت کا مظہر ہے) اور لوگوں نے یہ سب کچھ بغیر کسی احساس عدم تحفظ یاتی حکومتی جبرو دباؤ کے لیے کیا تھا۔

آر، اے ،نکلسن “R.A Nicholson”  اپنی ایک کتاب “A Literary history of the Arabs”  میں لکھتے ہیں :

“Muhammad is first care was to reconcile the desperate factions without the city and to introduce law and order among the heterogeneous elements which have been described

’’مدینہ آنے کے بعد محمد (کا پہلا کام شہر کے اندر مختلف طبقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف النوع عناصر میں امن و امان کا قیام تھا۔ “

ایسی اور بھی بے شمار شہادتیں موجود ہیں جو کہ غیر مسلم مفکرین اور مصنفین نے     بیان کیں۔جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جب انسانیت طرح طرح کے گروہوں ، طبقات میں منقسم ہوجائے ، امن محبت، بھائی چارہ ، مذہبی ہم آہنگی اخوت، ایثار اور ہمدردی کی اقدار مٹ رہی ہوں تو انسانیت کو دوبارہ سے مدینہ ماڈل کی طرف لوٹنا ہوگااسی میں تمام انسانی طبقات کی رہنمائی اور اصلاح کا نسخہ پوشیدہ ہے۔اس لیے آج پھر انسانیت کو ریاست مدینہ کے نافذ کردہ آئین کی ضرورت ہے جو نفرتوں کو مٹا دے اور دوریاں ختم کر کے انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب کر سکے۔ خاص کر مسلمانوں کو اپنے پیارے نبی (ﷺ) کی سیرت کے مطالعہ سے دُنیا کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کی بُنیادی تعلیمات ہیں ہی امن ، برداشت ، احترام اور محبت پر ۔اِس لئے اسلام ہر انسان کیلئے ، ہر سوسائٹی کیلئے اور ہر زمانے کیلئے آیا ہے ۔

 must read👇

           سنن النسائی،کتاب القیامۃ[2] 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
.