حُسن اخلاق کے مقاصد اور حصولِ اخلاق کےطریقے
رضاۓ الہی
اخلاق میں فضائل اور کمال حاصل کرنے کا مقصد اول اللہ تعالی کی رضا طلب کرنا ہے
حاکم اعلی صرف اور صرف اللہ تعالی ہے اس کے حکم سے کائنات کا نظام چل رہا ہے اور ہر شخص کسی کا محتاج ہے اس کی رضا اصل کرنے کا بہترین ذریعہ اخلاق کی درستگی ہے
امداد باہمی
افراد معاشرہ کو ایک دوسرے کے تعاون کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خوش اخلاقی نہایت ضروری ہے جس کی تعلیم قرآن وسنت نے نہایت موثر انداز میں دی ہے۔ چنانچہ اخلاق کا مقصد افراد معاشرہ کے درمیان تعاون کو بڑھانا اور مشکلات کو حل کرنا ہے۔
مثبت تبدیلی
انفرادی اور ا جتماعی سطح پر اخلاق کی وجہ سے معاشرہ میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اچھے
اخلاق سے اچھی تبدیلی اور برے اخلاق سے بری تبدیلی ہی نہیں بلکہ ہلاکت واقع ہوتی ہے۔ فضائل
اخلاق کا مقصد رذائل اخلاق کو ختم کرنا اور معاشرہ میں مثبت تبد یلی لانا ہے۔
خدمتِ خلق
مسلمان کی زندگی کا عظیم مقصد دوسروں کو خوشی دینا اور ان کی فلاح کیلئے کام کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی اسی کام میں صرف فرمائی۔ آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات اور عمل سے انسانوں کو اللہ تعالی کی معرفت عطا کی۔ نیکی اور بدی کی تمیز عطا کی۔
اور ایسے اخلاق اپنانے کی تلقین کی جس سے دوسروں کو نفع پہنچے۔ چنانچہ اخلاق کا ایک عظیم
مقصد خدمت خلق ہے جو رسول اللہ ﷺ کی مبارک سیرت سے ثابت ہے۔
حصول اخلاق کے طریقے
اخلاق حسنہ کا حصول چار طریقوں سے ہو تا ہے:
ا. پہلا طریقہ علم کا ہے۔ علم انسان کو فر شتوں سے افضل بناتا ہے۔ جس شخص کا علم قرآن وسنت کے مطابق اور مضبوط ہو گا اسے اخلاق حاصل ہو جاۓ
گا۔
2. دوسرا طریقہ غصہ وغضب کی کیفیات پر قابو پانا ہے۔ غصہ پی جانا انسان کا کام ہے اور غصہ سے مشتعل ہو جانا حیوانی صفت ہے۔ اس لیے اس کیفیت کو
قابو میں رکھنے سے اخلاق حسنہ کا حصول یقینی ہو جاتا ہے۔
3. تیسرا طریقہ شہوانی قوت پر قابو حاصل کرنا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز
رکھنے والا شخص ہی شہوانی قوت پر غالب آتا ہے اور اخلاق حسنہ سے ہم کنار ہو تا ہے۔
4. چوتھا طریقہ عدل و انصاف کی یقینی فر اہمی ہے ۔ جس گھر ، خاندان اور معاشرہ میں عدل و انصاف با آسانی میسر ہو جاۓ وہاں کی معاشرت بہت عظیم اور مثالی ہو جاتی ہے ۔ اور ایسے ہی گھر ، خاندان اور معاشرہ کے افراد کو اخلاقِ حسنہ حاصل ہوتے ہیں اور اسلام کا مقصد بھی اخلاقی حسنہ کی تعلیم و تربیت دنیا اور عوام میں اس کا عملی شعور بیدار کرنا ہے.