حضرت عمر ؓ کا نظام حکومت

2

 

حضرت عمر ؓ کا نظام حکومت

حضرت عمر ؓ  کا نظام حکومت


مرکزی نظام حکومت

خلیفہ کی حیثیت :

خلیفہ اسلامی حکومت کا امیر اور سربراہ ہوتا تھا وہ خدا کے رسول کا جانشین ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے تمام دینی اور دنیوی ضروریا ت کا

 نگران ہوتا تھا ۔ مدینہ منورہ دارالخلافہ تھا ۔

مجلس شوریٰ:

وہ احکامات اور فیصلے جو قرآن و حدیث میں نہیں ہوتے تھے۔ ان کو مجلس شوریٰ کے مشورے سے کیا جاتا تھا۔ حضرت عثمان، حضرت علی،

 حضرت طلحہ، حضرت زبیر ،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت سعد بن ابی وقاص  اور حضرت

زید بن  ثابت مجلس شوریٰ میں شامل تھے۔

دفتری نظام :

حضرت عمر نے دفتری نظام  ا یر انیوں کی طرز پر ایک ایرانی مدبر کے مشورہ  سے قائم کیا۔

مرکزی دفتر مسجد نبوی :

حضرت عمر کے دور میں مسجد نبوی اسمبلی ہال اور سیکٹر یٹ کا کام کرتی تھی۔ تمام ہدایات مسجد نبوی سے جاری کی جاتی تھیں۔

صوبائی نظام حکومت

صوبوں کی تقسیم :

حضرت عمر نے ریاست کو گیارہ صوبوں میں تقسیم کیا ۔

1.    مکہ

2.    مدینہ

3.     شام

4.     جزیرہ  

5.     بصرہ  

6.     کوفہ  

7.     مصر

8.     فلسطین  

9.     خراسان

10.   آذربائی جان

11.      فارس

حکام کا تقرر :-

عہدہ دار سے یہ عہد لیا  جاتا تھا

1.    وہ باریک کپڑا نہیں پہنے گا  

2.    وہ دروازے پر دربان نہ رکھے گا

3.    وہ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا۔

4.    وہ حاجت مندوں کے لیے اپنا دروازہ ہر وقت کھلا رکھے گا۔

5.    وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔

عمال کا محاسبہ :-

حضرت عمر عمال کا محاسبہ بڑی سختی سے کرتے تھے۔ کسی کو عہدے پر مقرر کرتے وقت اس کی ساری تفصیل محفوظ کر لیتے اگر اس میں اضافہ

 ہوتا تو اس کو عہدہ سے ہٹا دیتے۔

تحقیقاتی کمیٹی :-

آپ نے شکایت کی تحقیق کے لیے ایک خاص عہدہ قائم کیا ہوا تھا۔ جس پر حضرت محمد بن مسلمہ انصاری مامور تھے۔

مالی نظام حکومت

زکوة :-

ہر مسلمان پر زکوة کی اور ادائیگی فرض تھی۔ تمام لوگوں سے شرعی احکام کے مطابق زکوۃ وصول کی جاتی تھی۔

خراج :-

یہ وہ غلہ ہوتا تھے جو غیر مسلم کا شتکاروں سے زمین کی پیداوار میں سے وصول کیا جاتا تھا۔

جزیہ :

یہ وہ رقم تھی جو غیر مسلم رعایا سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے حوض لی جاتی تھی۔

خمس مال غنیمت :-

  مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ باقی مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

عشور :

  مال تجارت پر ٹیکس تھا۔

عشر :-

جو ز مین مسلمان کا شکاروں کی ہوتی ان سے دسواں حصہ لیا جاتا تھا۔

کراء الارض  :-

  وہ زمینیں  جو اسلامی ریاست کی مملکت ہوتی تھی۔ان کو لگان پر کاشت کاری کے لیے دیا جا تا تھا۔ ان کی آمدنی براہ راست بیت المال میں  جاتی تھی۔

انتظامی ادارے

محکمہ پولیس  :-

قیام امن اور شہریوں کی حفاظت کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا گیا جس کو احداث کے نام سے پکارتے تھے

جیل خانوں کا قیام :-

عہد فاروقی سے پہلے جیل خانے نہیں تھے حضرت عمر نے مجرموں کو سزا دینے کے لیے جیل خانے تعمیر کروائے

محکمہ ڈاک :-

حضرت عمرنے  پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانےکے لیے  محکمہ ڈاک قائم کیا۔

زرعی نظام حکومت

جاگیرداری نظام کا خاتمہ :-

حضرت عمر نے جاگیر داری نظام کو ختم کر دیا ۔ زمین اس کی جو کاشت کرے گا ۔

نظام آب پاشی :-

حضرت عمر نے زمینوں کو سیراب کرنے کے طریقوں کو بہتر بنایا اور نہریں کھدوائی

نہروں کی کھدوائی

ملک کو خوشحال ، ملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے حضرت عمر نے نہریں کھد وائیں جو مندرجہ دیل ہیں۔

1.    نہر امیر المومنین

2.    نہر ابو موسیٰ اشعری

3.    نہر معقل

4.    نہر سعد

خانہ کعبہ کے گرد چار دیواری :-

 خانہ کعبہ کے گرد چار دیواری کی اور مصری کپڑے کا غلاف بنوایا اور چار دیواری پر چراغ جلانے کا انتظام بھی کیا۔

مسجد نبوی کی توسیع :-

نمازیوں کی سہولت کے لیے مسجد نبوی کے صحن کو طول 140 گز اور عرض 20 گز کروایا ۔ چٹائیاں بچھا وائی ،کھجور کے تنوں کی جگہ لکڑی کے

 ستون نصب کروائے ۔ مگر سادگی کو برقرار رکھا  گیا ۔

سڑکیں اور پل :-

مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کو آسان کرنے کے لیے وقفے وقفے سے سرائے بنوائے۔ کنویں کھدوائے اس کے علاوہ سڑکیں اور پل بھی بنوائے ۔

فوجی نظام حکومت

شعبہ فوج کی ذمہ داریاں :-

شعبہ فوج کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ تمام مجاہدین کا ریکاڈ رکھے ان کی تنخواہوں کا تعین کرے ۔ بھرتی کے لیے شرائط طے کرنا بھی

اسی شعبہ کے ذمہ تھے۔

فوجی بھرتی:

مسلمان فوج میں شامی ، رومی، یہودی ، ہندوستانی  اور مجوسیوں کو بھی بھرتی کیا جاتا تھا۔

باقاعدہ اور رضا کار فوج  :-

اسلامی فوج دو حصوں میں تقسیم تھی باقاعدہ اور رضا کار فوج دونوں قسم کی فوج تنخواہ دار ہوتی تھی ۔

خواتین کی شمولیت :-

اسلامی سپاہیوں کے ساتھ باہمت اور جرات مند خواتین کو بھی فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا جو محاذ پر مسلمان مردوں کو حوصلہ دیتی۔ اور پانی پلاتی

 اور ان کی مرحم پٹی کرتی تھیں۔

رخصت/ چھٹی :

ہر فوجی جوان کو عام حالات میں ہر چار ماہ بعد اپنے گھر جانے کی اجازت ہوتی تھی ۔ جمعہ کو عام چھٹی ہوتی تھی ۔

Post a Comment

2Comments
Post a Comment
.